’’میں پندرہ دن قتل کی بات کر رہا ہوں !‘‘
’’وہ ایک ماہ سے گھر نہیں آئے !‘‘ نکہت بولی ۔’’سناہے ابشراب بھی پینے لگے ہیں !‘‘
’’اب کیا …وہ پہلے بھی پیتے تھے !‘‘ حمید نےکہا۔
’’ہم لوگو ں کو نہیںمعلوم تھا !‘‘
’’لیکن میں انہیں راہ راست پر لا سکتا ہوں !‘‘ حمید نے کہا ۔
’’وہ کس طرح؟‘‘
’’آپ مجھے بتا یئے کہ وہ کہا ں مل سکیں گے ۔ میں آج ہی انہیں پکڑلاؤں !‘‘
’’یہی معلوم ہوتا توڈیڈی ہی نہ پکڑلاتے !‘‘ نکہت بولی ۔’’ آپ تو ان کے دوست ہی ہیں۔آپ سےکیا پردہ وہ بیس بائیس ہزار روپے کے مقروض ہو گئے ہیںاور قرض بھی برے آدمیوں کا ہے ۔ آج ہی شہر کا ایک مشہور بدمعاش صفدر تقا ضے کے لئے آیا تھا۔میرا خیال ہے کہ وہ قرض خواہوں کی وجہ سے کہیں چھپ گئے ہیں !‘‘
’’اوہ !‘‘ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ قرض دار بھی ہیں!‘‘حمید نے ہمدردانہ لہجے میں کہا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ حقیقت ہے یا یہ دونوں لڑکیا ں جان بوجھ کر اُسے گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔حمید سوچتا رہا اور وہ دونوں چلی گئیں ۔
دھوپ عمارت کی دیوار وں پر چڑھنے لگی تھی۔
حمید اٹھ کر آہستہ آہستہ ٹہلتا ہوا عمارت کے داہنے بازوں کی طرف آیا ۔وہ یو نہی بغیر مقصدادھر نکل آیا تھا اور بالکل دیوار کے نیچے چلرہا تھا ۔دفعتہً کوئی چیز اس کے سر پر گری اور پھسلتی ہوئی نیچے چلی آئی ۔
حمید اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ ایک سفید رنگ کی رسی دیوار کی جڑ میں جھول رہی تھیں ۔حمید کا سر بے ساختہ اوپر کی طرف اٹھ گیا۔ رسی اوپری منزل کی ایک کھڑکی سے پھینکی گئی تھی۔کھڑکی میں ایک چہرہ دکھائی دیا۔
وہ صوفیہ تھی جیسے ہی اس کی نظر حمید پر پڑی اس نے رسّی کو اوپر کھینچ کر کھڑکی بند کر لی۔
حمید پہلے تو یہ سمجھا کہ شاید صوفیہ بھی اسے چھیڑرہی ہے لیکن پھر اسے اپنا خیال تبدیل کر دینا پڑا ۔کیونکہ اوپر سے پھینکی گئی رسی حقیقتاً رسی نہیں تھی بلکہ نواڑ کو بٹ کر اسے رسی کی شکلدی گئی تھی اور پھر ایک دوسرے ہی خیال نے اس کے ذہن میں سر اُٹھا
پھر وہ تیزی سے چلتا ہوا عمارت کے سرے تک آیا اور پھروہیںسے مہندی کی باڑھ کی اوٹ پکڑ کر دوبارہ اسی کھڑکی کی طرف چلنے لگا۔ اس طرف منہدی کی باڑھ شاید عرصہ سے بے مرمت پڑی ہوئی تھی اس لئےحمید کو دیکھ لئے جانے کا خاشہ نہیں تھا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد کھڑکی پھرکھلی۔ صوفیہ نے آدھے دھڑ سے باہر لٹک کر چاروںطرف دیکھا اورپھر اس نے رسی نیچے پھینک دی۔
پھر حمید نے جودیکھاوہ اسکے لئے حیرت انگیز بھی تھااور حشتناک بھی۔ کھڑکی زمینسے پچیسیا تیس فیٹ بلندتھی لیکنصوفیہاسرسی کے سہارے درِدیوار سے دونوں پیر لٹکائے اتنی بے خوفی سے نیچے اتر رہی تھی جیسے وہ اس کے لئے محض معمولی تفریح ہو۔اُسے زمین تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
حمید نے ایک بار پھر کھڑکی کی بلند ی کا جائزہ لیا اور سنا ٹے میں آگیا ۔صوفیہ نے اپنے سینڈل پتلون کی جیب میں ٹھونس رکھے تھے ۔ اس نے انہیں جلدی سے پیروں میں ڈالا اور قریب قریب دوڑتی ہوتی گیراج کی طرف چلی گئی ۔ حمید چپ چاپ منہدی کی باڑھ کی اوٹ سے نکلا ۔ چند لمحے کھڑا