پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’تان سین زندہ ہوتا تو اسے کسی پاور ہاؤز میں قلی گیر ی کرنی پڑتی ۔رہا ملہار کا قصہ تو وہ صرف مینڈکوں کو پسند آیا تھا۔ مینڈک ہی آج بھی مہارگا تے ہیں اور جب گاتے ہیں تو پانی ضرور برستا ہے۔اس زمانے میں تان سین کو محکمہ موسمیات میں ضرور نوکری مل جاتی!‘‘

’’آپ باتوں میں ٹالیں گے سنا ئیں گے نہیں !‘‘ سعیدہ نے کہا۔

’’آؤٹ ہاؤز میں آگ لگی ہوگی تو بڑا زور دار دھما کہ ہوا ہو گا !‘‘ حمید بولا۔

’’پتہ نہیں!‘‘ سعیدہ دفعتہً مغموم ہو کر بولی۔’’ہم سور ہے تھے!‘‘

نکہت بھی اُداس نظر آنےلگی۔

’’بڑا عبر تناک منظر ہوگا!‘‘

وہ دونوں خاموش رہیںپھرنکہت یک بیک اٹھتی ہوئی بولی۔

’’ہم نے ابھی چائے نہیں پی!‘‘

اس کے اٹھتے ہی سعیدہ بھی کھڑی ہوگئی۔

’’ہائیں! تو کیا اب میں ان درختوں کو سناؤں گا۔ بھائی دانش میرے بڑے قدرداں ہیں۔مگر افسوس کہ وہ موجود نہیں!‘‘

’’کک…کیا آپ انہیں جانتے ہیں !‘‘ سعیدہ حمید کو گھور کر بولی۔

’’جاننے کی ایک ہی کہی …!ارے ہم دونوں گہرے دوست ہیں !‘‘

’’تب تو آپ بھی انہیں کی طرح آوارہ ہو ں گے !‘‘ نکہت ناک پر شکنیں ڈال کر بولی۔

’’آواہ !‘‘ حمید حیرت سے بولا۔

’’جی نہیں بہت شریف!‘‘ نکہت نے طنزاً کہا ۔’’اتنے شریف کہ ایک ماہ سے گھر والوں کو ان کی شکل نہیں دکھا ئی دی!‘‘

’’حیرت ہے !‘‘ حمید نے کہا ۔’’میرا خیال ہے کہ وی شہرہی میں ہیں …شاید چودہ پندرہ دن قتل ملا قات بھی ہوئی تھی !‘‘

’’شہرہی میں ہیں !‘‘ سعیدہ نے حیرت سے کہا۔

Leave a Comment