’’فلموں میں !‘‘ حمید نے حیرت سے کہا۔ ’’ نہیں تو …!‘‘
’’واہ… ہم نے تو آپ کو بیجو باورا میں دیکھا تھا !‘‘ نکہت لچک کر بولی ۔
’’بیجو باورا!‘‘ حمید نے احمقوں کی طرح پلکیں جھپکائیں۔
’’آپ اپنا تانپورہ کیوں نہیں لائے !‘‘ سعیدہ نے کہا۔
’’آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے !‘‘ حمید بوکھلا کر بولا ۔
’’ ہم سمجھتے ہیں!‘‘ دونوں بیک وقت ہنسنے لگیں ۔
حمید اور زیادہ بوکھلا گیا… وہ در اصل اب تک ان کو احمق سمجھ کر نظر انداز کرتا رہا تھامگر وہ دونوں اچانک اُسے گھسنے پر آمادہ ہو ئیں اور حملہ کچھ اس بے ساختگی کے ساتھ ہوا تھا کہ حمید کو پگڑی سنبھالنی دشوار ہوگئی ۔ حالانکہ اگر اس کے سر پرسچ مچ پگڑی ہوتی تو وہ اسے قابل اعتناہی نہ سمجھتیں۔
’’ گا تا تو آپ کو سنانا ہی پڑے گا !‘‘ نکہت بولی ۔
اور پھر حمید کو سچ مچ ایسا ہی محسوس ہو نے لگا جیسے اس کی شکل پکا گا نا گا تے وقت بگڑی گئی ہو۔قریب تھا کہ وہ بوکھلا کر ہکلا نا شروع کر دے اس نے خود کو سنبھال لیا۔
’’کیا سنئے گا!‘‘ اس نے سنجیدگی سے پوچھا ۔
’’جئے جئے ونتی !‘‘ نکہت بولی۔
’’نہیں …گو جری ٹوری !‘‘ سعیدہ نے کہا۔
’’فی الحال جھاپ کا خیال سنئے !‘‘ حمید داہنے کان پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔’’صوفیہ صاحبہ کو بھی بلا لیجئے !‘‘
’’صوفی صاحب کہئے !‘‘ سعیدہ نے تنفر آمیز لہجے میں کہا ۔’’وہ کسی درخت پر چڑھی گلہریاں پکڑرہی ہوگی!‘‘
’’تو چلئے اسی درخت کے نیچے سہی!‘‘
’’یہیں سنیں گے !‘‘نکہت نے کہا۔
’’پاگل ہوئی ہے !‘‘ سعیدہ بولی ۔’’ڈیڈی دھرپت الا پنا شروع کر دیں گے !‘‘
وہ وعقبی پارک کے ایک درخت کے سائے میں آبیٹھے دن ڈھل رہا تھا اور دھوپ میں اب زیادہ تمازت نہیں رہ گئی تھی۔
حمید نے چاروں طرف متجس نظروں سے دیکھامگر صوفیہ یہاں بھی کہیں نہ دکھا ئی دی۔
’’چلئے دیپک !‘‘ حمید مسکرا کر بولا۔’’آپ میں سے کسی کو میگھ ملہا ر آتی ہے ؟‘‘
’’د یپک !‘‘ حمید مسکرا کر بولا ۔’’ آپ میں سے کسی کو میگھ ملہار آتی ہے؟‘‘
’’کیا واقعی دیپک راگ سے چراغ جل اٹھتے تھے ؟‘ ‘سعیدہ نے پوچھا۔
’’بالکل !‘‘ حمید سنجیدگی سے سر ہلا کر بولا ۔ ’’ محض اسی لئے ایک بارتان سین کو دہلی اسٹیشن میں ملازمت کرنی پڑی تھی !‘‘
’’ کیوں … دہلی ریڈیو…!‘‘ سعیدہ ہنسنے لگی ۔
’’جی ہاں ! ہوا یہ کہ ایک بار بیربل کی حماقت سے دیا سلائیوں کی امپورٹ بند ہوگئی ۔ سارے ملک میں اندھیراچھاگیا ۔ تب اکبر بادشاہ نے تان سین کو ریڈیو اسٹیشن میں ملازمت دلوادی۔ سا نجھ بھئے اور یپک براڈ کاسٹ کرتا تھا اور ملک کے چراغ روشن ہو جاتے تھے !‘‘
’’تو وہ غریب بھی روز ہی جل بُھن جاتا رہا ہوگا؟‘‘
’’قطعی نہیں ! وہ ایک ریفر یجریٹر میں بیٹھ کر گا یا کرتا تھا!‘‘
دونوں نے قہقہہ لگا یا۔ پھر نکہت بولی ۔’’آج کل کسی کو دیپک اور کیوں نہیں آتے؟‘‘
’’بجلی کی بڑھتی ہوئی مقبو لیت کی بنا پر !‘‘ حمید ٹھنڈی سانس لے کر بولا۔