پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ہام!‘‘ صفدر اپنی بائیں آنکھ بند کر کے داہنا گال کھجانے لگا۔

’’تب تو پھر یہ حرکت دانش ہی نے کی ہوگی !‘‘ وہ کچھ دیر بعد بولا۔

’’ کیوں؟‘‘

’’ٹھہرئیے بتاتا ہوں!‘‘ صفدر نے کہا اور گھنٹی کا بٹن دبانے لگا۔

تھوڑی دیر بعد ایک آدمی بھاگتا ہوا کاؤنٹر کی طرف آیا۔

’’ جگدل کو بھیجو! ‘‘ صفدر نے اس سے کہا اور وہ آدمی اُلٹے پاؤں واپس چلا گیا ۔

دو تین منٹ بعد ایک نو جوان اور گرانڈیل آدمی کا ؤنٹرکے پاس آکر کھڑا ہو گیا ۔ ظاہری حالت ہی سے خاصا بدمعاش معلوم ہوتاتھا۔

’’پچھلی بار تم سے اور دانش سے کیا باتیں ہوئی تھیں!‘‘ صفدر نے اس سے پوچھا۔

آنے والے کا متجس نظروں سے فریدی اور حمید کی طرف دیکھا اور اپنی داہنی ران کھجانے لگا۔

’’بتاؤ کیا باتیں ہوئی تھیں ؟‘‘ صفدر نے دوبارہ پوچھا۔

’’ارے ژناب دانس مَسکھڑی کرتا تھا!‘‘

’’بتاؤ نا!‘‘ صفدر نے تیز لہجے میں کہا۔

وہ کچھ دیر چپ رہا پھر بولا۔’’دانس صاحب بولا تھا۔ہمارے چاچا کوٹخ کرو تو دس ہجارروپیہ دوں گا!‘‘

’’ٹخ !‘‘حمید آنکھیں نکال کر بولا۔

’’ہاں ہاں …ٹخ …!‘‘ اس نے اپنی گردن پرانگلی پھیر کرکہا۔

’’ مراد قتل ہے ! ‘‘ صفدر مسکرا کر بولا۔

’’ پھر تم نے کیا کہا ؟ ‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’ تم نے کچھ کہا ہی نہیں !‘‘

’’ صاحب ہم بھی مسکھڑی کیا ۔ ہم بولا پہلے دس ہجار دلواؤ ۔

پھر دانس صاحب ہم کو ایک چُھرا دکھایا۔ بولا وہ کھُداپنے چاچا کو ٹخ کرے گا ۔ ہم بولا ۔ چھرا مارنے کو جور چاہئے …تاکت چاہئے … دانس صاحب بولا وہ اپنے چاچا کے گھر آگ لگا دے گا !‘‘

’’ تم جانتے ہو آج کل دانش کہاں ہے؟‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’نہیں ژناب !‘‘

Leave a Comment