پُراسرار وصیت – ابن صفی

صفدر نے جھلا کر فون کا ریسیور اٹھایا اور شاید ناصر کے نمبر ڈائل کرنے لگا ۔ پھر اس نے ماؤتھ پیس میں ناصرہی کو مخاطب کیا ۔ وہ اُس سے فریدی کی کہی ہوئی بات کے متعلق پوچھ رہاتھا… پھر وہ ماؤتھ پیس کو ہتھیلی سے بند کر کے فریدی کی طرف مڑا…

’’ ناصر تو اس سے انکار کرتا ہے!‘‘ اس نے کہا۔

’’اوہ … !اب اس سے کہو کہ تمہیں یہ اطلاع بیرسٹر جعفری سے ملی ہے…!‘‘ فریدی نے کہا۔

صفدر نے ماؤتھ پیس میں فریدی کا جملہ دہرا دیا اور پھر وہ اس کے بعد ’’ہیلو ہیلو‘‘ ہی کرتا رہ گیا۔ آخر اس نے جھلا کر ریسیور کو اسٹینڈ پر پٹخ دیا۔

’’ کیوں کیا ہوا ؟‘‘ فریدی نے مسکرا کر پوچھا۔

’’ سالے نے ایک گندی سی گالی دے کر سلسلہ منقطع کر دیا !‘‘ صفدر ہانپتا ہوا بولا۔

’’مجھے یا تمہیں !‘‘ فریدی نے مسکرا کر پوچھا۔

’’پتہ نہیں !‘‘ صفدر بے زاری سے بولا ۔’’ خیر میں سالے سےسمجھ لوں گا!‘‘

’’تو آپ بتائیے نا کہ آپ کس طرح سر مخدوم کی جائداد کے مالک ہو سکتے ہیں !‘‘ صفدر جھنجھلا کر بولا ۔

’’سر مخدوم کی وصیت کے مطابق !‘‘

’’اوہ جب آپ سر مخدوم کے کوئی نہیں تو سر مخدوم کو پاگل بھی ثابت کیا جاسکتا ہے!“

’’کون کرے گا ؟ ‘‘ فریدی نے پوچھا۔

’’ناصر!‘‘

’’ہر گز نہیں کر سکتا …اگر اس نے ایسا کیا تو اس کے ہتھکڑیاں لگ جائیں گی !‘‘

’’ کیوں…؟‘‘

’’جب سر مخدوم پاگل تھے تو انہیں آتش بازی کے ذخیرے کے ساتھ مہمان خانے میں تنہا کیوں چھوڑا گیا !‘‘

’’صفدر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

’’تو پھر میرارد پیہ ڈوب گیا !‘‘صفدر آہستہ سے بولا۔

’’ نہیں یہ بھی ضروری نہیں۔ بعض حالات میں تمہارا روپیہ واپس بھی ہو سکتا ہے!”

’’وہ حالات کیا ہوں گے !‘‘

’’دانش کے متعلق میرے لئے صحیح معلومات بہم پہنچاؤ!‘‘

’’کس قسم کی معلومات ؟‘‘

’’یہی کہ دانش اس وقت کہاں ہے؟‘‘

’’بھلا میں کیا بتا سکتا ہوں …وہ تو مجھے اُسی شام کو دکھائی دیا جس رات کوٹھی کے آؤٹ ہاؤز میں آگ لگی تھی !‘‘

’’اوہ تو وہ اس شام کو دکھائی دیا تھا !‘‘

’’جی ہاں… اور اس کے بعد سے آج تک میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔ ٹھیک یاد آیا… اب تو میں ان سالوں کو پھانسی کے تختے پرہی دیکھنا پسند کروں گا۔ ناصر سے آج میں نے دانش کے متعلق پوچھا تھا جس پر اس نےبتایا کہ وہ ایک ماہ قبل کہیں باہر گیا تھا اور اب تک واپس نہیں آیا۔ حالانکہ یہ بکواس ہے۔ میں نے حادثے کی شام کو اُسے دیکھا تھا۔ اس نے نہیں شراب پی تھی !‘‘

’’تو تم نے ناصر سے اس کا تذکرہ نہیں کیا تھا ؟‘‘

’’کیا تھا …لیکن اس نے جواب دیا کہ دانش ایک ماہ سے گھر نہیں آیا !‘‘

’’ہوں ! ‘‘ فریدی نے حمید کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’ صفدر نے اب سچ بولنا شروع کیا ہے!‘‘

’’پندرہ ہزار کم نہیں ہوتے !‘‘ صفدر، فریدی کو گھور کر بولا ۔ ’’ میرے پاس پر نوٹ… !‘‘

’’ٹھیک ہے! اور وقت آنے پر تمہاری پائی پائی ادا ہو جائے گی۔ ویسے کیا تم مجھے وہ جگہیں بتاسکتے ہو جہاں دانش کے ملنے کے امکانات ہوں ؟“

’’ کیوں ؟ ‘‘صفدر چونک کر بولا ۔ ’’ آخر آپ کو دانش کی تلاش کیوں ہے؟‘‘

’’ میرا خیال ہے کہ سر مخدوم کی موت اتفاقیہ نہیں تھی !‘‘

Leave a Comment