پُراسرار وصیت – ابن صفی

وہ گھر واپس آگیا ۔

اندھیرا پھیل گیا تھا ۔کار گیراج میں کھڑی کر کے حمید بڑی دیر تک لان پر کھڑا رہا ۔رات کی رانی کی مہک ملگجے اندھیرے سے ہم آہنگ ہو کر اسے اپنی روح کی گہرائیوں میں اتر تی محسوس ہو رہی تھی ۔اس نے ایک طویل سا نس لی اور آہستہ آہستہ بر آمد ے کی طرف بڑھا ۔

فر یدی کی آواز ڈرائنگ روم میں سنا ئی دی ۔وہ تنہا نہیں معلوم ہو تا تھا ۔

حمید نے ڈرائنگ روم کا رخ کیا ۔اس کے داخل ہو تے ہی دوسرا آدمی خاموش ہو گیا ۔

’’کو ئی بات نہیں !‘‘ فر یدی مسکراکر بولا ۔’’یہ میرے سا تھی ہیں !‘‘

اور پھر اس نے سر کی حبنبش سے حمید کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔

کچھ لمحے خاموشی سے گزرے۔اس کےبعد فر یدی نے اپنے سا منے بیٹھے ہو ئےبھا ری پھر کم آدمی سے کہا ۔

’’اگر یہ مذاق نہیں تو مجھے ان کے صحیح الدماغ ہو نے میں شبہ ہے !‘‘

’’پہلے مجھے بھی شبہ ہو ا تھا !‘‘اجنبی نے کہا ۔’’لیکن …میں ان کے صحیح الدماغ ہو نے کی سند بھی پیش کر سکتا ہوں …اور یہ عجیب بات ہے ۔خودانہو ں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اس سلسلے میں اپنا اطمینان کر لوں !‘‘

اس نے چمڑے کے بیگ سے ایک بڑا سا لفافہ نکال کر فر یدی کی طرف بڑھا دیا۔

فر یدی نے لفافے سے ایک کا غذ نکالا اور تھو ڑی دیر تک اس پر نظریں جما ئے رہنے کے بعد بولا ۔

’’اسے میں غلط نہیں کہہ سکتا!‘‘ اس کے چہرے پر تشویش کے آثار تھے۔

’’لیکن …ٹھہریئے…!‘‘

’’میں خود بھی الجھن میں ہوں !‘‘ اجنبی نے کہا ۔’’ان کے اعزّہ…!‘‘

حمید نے فریدی کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں وہی پرانی پراسرار چمک تھی جواکثر کشت وخون کی پیش خیمہ بن جا یا کر تی تھی ۔

’’کیس دلچسپ ہے !‘‘ فر یدی نے اجنبی کا جملہ پو را ہو نے سے قبل ہی کہا ۔’’اچھا میں دیکھوں گا !‘‘

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا !‘‘ اجنبی بولا ۔

’’آپ میرے پیشے سے واقف نہیں !‘‘ فر یدی نے ہلکی سی مسکراہٹ کے سا تھ کہا۔’’کیا آپ کو یہ سب کچھ حیرت انگیز نہیں معلوم ہو تا ۔میڈ یکل بورڈ کی رپو رٹ میرے سا منے ہے اور میں اس میں ایسے لو گوں کے نام دیکھ رہا ہو ں جو غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتے !‘‘

’’بہر حال…!‘‘اجنبی ایک طویل سانس لے کر بولا ۔’’مجھے مشورہ دیجئے کہ میں کیا کروں ۔یہ سب کتنا مضحکہ خیز ہے ؟ میں نے ان کی موجود گی ہی میں ہر پہلو پر غور کر نے کی کوشش کی تھی اور میں نےکئی بار چاہا تھا کہ آپ سے اس سلسلے میں ملوں ۔لیکن …وہ پا بندی جو مجھ پر عائد

کی گئی ہے مجھے روکتی رہی!‘‘

فر یدی کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا ۔’’اچھا جناب !…میں تیار ہو ں لیکن آپ اس کے متعلق کسی سے گفتگو نہیں کریں گے ۔خصوصاً اخباری رپورٹروں سے !‘‘

’’میں خیال رکھو ں گا …!‘‘ اجنبی نے پہلو بد لتے ہو ئے کہا ۔’’اچھا اب اجا زت دیجئے !‘‘

وہ فر یدی اور حمید سے مصافحہ کر کےرخصت ہو گیا۔

Leave a Comment