پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’آپ لین دین کے متعلق کیوں پوچھ رہے ہیں !‘‘

’’ یونہی !‘‘ تفریحا ً!‘‘فریدی اس کی طرف مڑ کر مسکرایا۔

’’میں سمجھ گیا! ‘‘ صفدر آہستہ سے بڑ بڑایا۔ پھر یک بیک اس کا چہرہ سرخ ہو گیا اور اس نے دانت میں کر کہا۔

’’ ناصر دورُخی چل رہا ہے!‘‘

’’نہیں اتفاق سے اس بے چارے کا کوئی رخ ہی نہیں رہ گیا !‘‘ فریدی نے سرد لہجے میں کہا۔

سارجنٹ حمید سے ٹکرانے کے بعد اس نے یقیناً تمہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کی ہوگی لیکن اصل حقیقت سے دور ہی رکھا ہوگا۔ تم سمجھے ہو گے شاید ناصر نے ہم لوگوں کو محض تمہاری وجہ سے مدعو کیا ہے!‘‘

صفدر اُسے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔

’’پھر کیا بات تھی؟ ‘‘اس نے آہستہ سے کہا۔

’’ تم نے سرجنٹ حمید سے کہا تھا کہ تم نے اپنی مضبوطی پہلے ہی کر لی تھی ۔ یعنی غالبًا تم نے دانش سے پر ونوٹ لکھوالیا تھا …مگر اب پرونوٹ بھی تمہیں تمہاری رقم واپس نہ دلا سکے گا !‘‘

’’ کیوں؟‘‘ صفدر غرا کر بولا۔

’’ کیونکہ سرمخدوم کی جائیداد کا مالک میں ہوں ۔ اس کے اعزہ نہیں ۔ وہ بھی اب میرے ہی رحم و کرم پر ہیں!‘‘

’’ نہ جانے آپ کہاں کی ہانک رہے ہیں !‘‘ صفدر بے ساختہ ہنس پڑا۔

’’ناصر سے پوچھ لو! ‘‘فریدی نے فون کی طرف اشارہ کیا۔

’’ وہ گیا جہنم میں ! میں اُسے دیکھ لوں گا !‘‘

’’ضرور دیکھ لینا۔ لیکن رقم وصول نہ ہو سکے گی۔ کتنے روپے تھے !‘‘

’’پندرہ ہزار ۔ میں نے پر ونوٹ لکھوا لیا تھا۔ ایک ماہ گزرا اس کی مدت پوری ہو چکی ہے اور اب میں دعویٰ دائر کر سکتا ہوں !‘‘

’’کیا فائدہ دانش کی طرف سے مفلسی کی عذرداری ہو جائے اور پھر اگر وہ جیل بھی گیا تو اس کے اخراجات

تمہارے ذمہ!‘‘

’’آخر کیوں !… کیا اب سر مخدوم کی جائیداد کا مالک ناصر نہیں !‘‘

’’ ہر گز نہیں! کہہ تو دیا کہ میں جب چاہوں اسے کوٹھی سے بھی نکال سکتا ہوں !‘‘

’’میں نہیں سمجھ سکتا ! ‘‘

’’سر مخدوم کی وصیت! جس کی رو سے میں ان کی جائیداد کا مالک ہوں !‘‘

’’سر مخدوم آپ کے کون تھے؟‘‘

’’کوئی بھی نہیں !‘‘

Leave a Comment