پُراسرار وصیت – ابن صفی

’’ بہر حال یہ کیسی مجھے ضرور پاگل بنادے گا !‘‘حمید نے پائپ لگاتے ہوئے کہا۔

شہر پہنچ کر فریدی نے کیڈی صفدر کے ہوٹل کے سامنے روک دی۔ یہ ہوٹل کچھ اس قسم کا تھا کہ اگر اس کے ساتھ بھی نہ ہوتی تو لوگ اسے قابل اعتنا بھی نہ سمجھتے اور ویسے تو اس کی گہرائیوں کے واقف کا رشہر کے بہت بڑے بڑے لوگ تھے۔

در پردہ یہاں ایک بہت بڑا قمار خانہ تھا اور شہر کے بہتیرے دولت مند یہاں جوا کھیلتے تھے۔

صفدر انہیں کاؤنٹر ہی پر مل گیا اور اس نے انہیں دیکھ کر بہت پُر امنہ بنایا۔ صفدر پولیس یا محکمہ سراغرسانی کے آفیسروں سے ذرہ برابر بھی مرعوب نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کے روپوں کی پہنچ دور دور تک تھی ۔

حمید کو صفدر کے اس رویے پر بڑا تاؤ آیا لیکن فریدی نے اپنی ظاہری حالت میں بالکل فرق نہ آنے دیا۔

’’ کیا تم دانش سے واقف ہو؟‘‘ فریدی نے صفدر سے پوچھا۔

’’ میں کسی دانش وانش کو نہیں جانتا اور نہ میں اسے پسند کرتا ہوں کہ آپ جیسے بزرگ لوگ یہاں آنے کی تکلیف اٹھا ئیں !‘‘

’’ آج غلطی ہوئی آئندہ بلوائیں گے! ‘‘حمید جھلاّ کر بولا۔

’’ کیا آپ نے مجھے بھی کسی بنئے ونئے کا لونڈاسمجھا ہے؟‘‘

’’کیا تم سر مخدوم کے بھتیجے دانش کو نہیں جانتے ؟‘‘ فریدی نے پھر پوچھا۔

’’نہیں!‘‘

’’اور نہ اس سے کبھی تمہارا لین دین رہا ہے؟‘‘

’’ کیوں… نہیں! میں اسے جانتا ہی نہیں !‘‘

’’ کیا تم دو گواہوں کے سامنے یہی جملہ دہرا سکو گے یا اسے بھی چھوڑو! مجھے لکھ کر دے دو کہ دانش سے تمہارا کبھی کوئی لین دین نہیں رہا !‘‘

’’میں کیوں لکھ کر دے دوں ؟‘‘

’’حرج ہی کیا ہے ! جب تم اسے نہیں جانتے !‘‘

’’دیکھئے جناب میرے پاس بے کا وقت نہیں ہے!‘‘

’’خیر !‘‘فریدی لا پروائی سے بولا ۔’’ لیکن تمہیں دانش سے جبہ بھی وصول ہو جانے کی توقع نہ رکھنی چاہئے !‘‘

’’نہ جانے آپ کیا …!‘‘

فریدی اس کی بات پر دھیان دیئے بغیر واپس جانے کے لئے مُڑا۔

’’ٹھہریئے!‘‘ صفدر مضطربانہ انداز میں بولا۔

فریدی رک گیا لیکن اس کی طرف مڑا نہیں ۔

Leave a Comment