’’ اس کی لڑکی پہلے ہی سے براؤن پری کے بھتیجے سفید پَرے پر عاشق تھی۔ سفید پَر اجو دور سے کوئی امریکن اور قریب سے قلعی کیا ہو ا مراد آبادی اگلدان معلوم ہوتا تھا۔
میں نے سوچا کہ اگر میں تحصیل دار کی لڑکی پر عاشق ہوا تو وہائٹ پَر امجھے اس قدر بور کرے گا کہ میں مرجاؤں گا ۔ وہ کم بخت جس کا بھی دشمن ہوتا اسے اپنے فرضی معاشقوں کی اتنی داستانیں سنا تا کہ وہ بے چارہ بور ہو کر یا تو خودکشی کر لیتا یا پھر شادیاں کرنا شروع کر دیتا۔ بہر حال تحصیل دار کی لڑکی نے میرا تعارف اپنے میاں سے کرا دیا۔‘‘
’’ اب تم مجھے بور کر رہے ہوا!‘‘ صوفیہ اٹھتی ہوئی بولی۔
’’یہ ابھی چچا ناصر کےساتھ کون تھا؟‘‘ حمید نے پوچھا۔
’’کیوں؟تم سےمطلب !خیر چھوڑواسے !میں تم سے ایک سوال کرنا چاہوں گی!‘‘
’’مگر وہ ار تھمیٹک کانہ ہو!‘‘ حمید مسکرا کر بولا۔
’’پچھلی رات بھاگنے والا کون تھا؟‘‘
’’پتہ نہیں!‘‘
’’گھر کے سب لوگ موجود تھے !‘‘ صوفیہ آہستہ سے بولی۔
’’ کیا تم اب بھی گھر والوں میں سے کسی پر شبہ کرو گے !‘‘
’’ہر گز نہیں ۔ لیکن یہ صفدر یہاں کیوں آیا ہے؟‘‘
’’کون صفدر ؟‘‘
’’وہی جو اس وقت ناصر صاحب کے ساتھ ہے!‘‘
’’میں نہیں جانتی ! انہی سے پوچھو!‘‘
حمید چند لمحے خاموش رہا پھر بولا ۔ ’’ ناصر صاحب تمہارے والد ہیں !‘‘
’’کیوں؟… نہیں تو… میرے چچا ہیں۔ میرے والد کا انتقال بچپن ہی میں ہو گیا تھا ۔ مگر تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو ؟‘‘
’’ان کا برتاؤ تمہارے ساتھ اچھا نہیں معلوم ہوتا !‘‘
صوفیہ کچھ نہ بولی۔ اس نے خاموشی سے ہتھوڑا اٹھایا اور باہر چلی گئی۔
حمید بڑی دیر تک اس لڑکی کے متعلق سوچتا رہا۔
غالبًا صفدر جاچکا تھا۔ حمید کمرہ مقفل کر کے پھر بر آمدے میں آ گیا۔ فریدی ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ حمید کی گھٹن بڑھتی گئی۔ وہ پچھلی شام کو بھی کہیں باہر نہیں جا سکا تھا اور آج بھی نکل بھاگنے کے امکانات نظر نہیں آرہے تھے ۔
وہ بڑی بے دلی سے پائپ لگا کر کرسی کی پُشت سے ٹِک گیا۔