اجنبی حمید پر قہر آلود نظر ڈالتا ہوا نا صر کے پیچھے چلا گیا۔
حمید کی حیرت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ۔ اجنبی کوئی معزز آدمی نہیں تھا وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔ شہر کا مشہور بدمعاش صفدر خاں جس کے کئی جوئے خانے چلتے تھے اور وہ پولیس والوں کو کافی رقم کھلاتا تھا۔
ایسی صورت میں حمید کا برآمدے میں رکے رہنا ناممکنات میں سے تھا۔ وہ بھی اندر چلا گیا لیکن ناصر تک پہنچنا مشکل تھا۔ فریدی کی بھی ہدایت تھی کہ ان کے بھی معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے …مگر… صفدر سے جس قسم کی گفتگو ہوئی تھی اس کا تقاضہ تھا کہ ایسے موقع پر چوکنا رہنا چاہئے۔ پھر صفدر کو دیکھ کر ناصر کی گھبراہٹ آخر اس کا کیا مطلب تھا ۔ وہ تیزی سے کا ریڈر طے کرنے لگا۔ لیکن جیسے ہی وہ سرے پر مڑا اُسے اس طرح رک جانا پڑا جیسے پوری بریکیں لگ گئی ہوں ۔
صوفیہ اس کے کمرے کے دروازے پر جھکی ہوئی تھی اور اس کا انہماک اتنا بڑھا ہوا تھا کہ اسے حمید کے آنے
تک کی خبر نہ ہوئی۔ وہ ایک مڑے ہوئے تار کی مد سے دروازے کا قفل کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی پتلون کی جیب میں پڑے ہوئے ہتھوڑے کا دستہ حمید کو صاف نظر آرہا تھا۔
’’ لاؤ… مجھے دو… میں کھول دوں !‘‘ حمید آگے کی طرف جھکتا ہوا آہستہ سے بولا۔
صوفیہ اچھل کر پیچھے ہٹ گئی ۔ پہلے تو اس کی آنکھیں خوفز دہ سی نے ایک جھینپا جھینپا سا قہقہہ لگایا ۔
لیکن حمید کی سنجید گی میں ذرہ برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔ اس نے اس طرح اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ لی جیسے خود بھی اس چوری میں شریک ہو۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر تار صوفیہ سے لیا اور قفل پر جھک پڑا۔ تھوڑی کی جدو جہد کے بعد قفل کھل گیا اب حمید نے دروازے کو دھکا دے کر کھولتے ہوئے اسے اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
نہ جانے کیوں صوفیہ بھی سنجیدہ نظر آنے لگی لیکن اس کی سنجید گی میں حیرت بھی شامل تھی۔
’’ ایڈونچر ‘‘ حمید نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا۔
صوفیہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلا دیا پھر اس کی نظریں جو نکوں والے مرتبان کی طرف رینگ گئیں جو میز پر رکھا ہوا تھا۔ ’’پارٹنر… حمید ایک گہری سانس نے کرشانے بھٹکتا ہوا بولا ۔ ’’ ہم دونوں مل کر ایک رات میں سارے شہرکولوٹ سکتے ہیں !‘‘
صوفیہ پھر ہنسنے لگی اور پھر اس نے حمید کو باتوں میں الجھا کر جیب سے ہتھوڑا نکال لیا اور اسے اپنی پشت پرچھپائے ہوئے آہستہ آہستہ میز کی طرف کھسکنے لگی۔
’’ اوں ہوں !‘‘ دوست !‘‘ حمید سر ہلا کر بولا ۔’’ ٹھہرو!‘‘
اس نے نہایت آہستگی سے ہتھوڑا اس کے ہاتھ سے لے لیا اور توقع کے خلاف صوفیہ نے کوئی تعرض نہیں کیا۔
’’یہ جو نکیں !‘‘ حمید نے خوابناک انداز میں کہا۔ ’’میرے لئے معزز ترین ہیں… ادھر آؤ! میں تمہیں ان سےملاؤں!‘‘
حمید نے جیب سے ایک چھوٹی سی چمکدار چمٹی نکالی اور اس کی مدد سے ایک جو نک نکال کر بولا۔
’’لیڈی چیڑ لی!‘‘
پھر وہ ایک ایک جونک نکال کر میز پر ڈالتا اور کہتا گیا۔ ’’ مادام بواری، سی نوز ٹیا، کلوپٹرا، ماد موزئیل دیراں …!‘‘
’’ہٹو! تم کتنے گندے آدمی ہو! ‘‘صوفیہ نفرت سے ہونٹ سکوڑ کر بولی ۔
’’ میں گندے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہوں!‘‘ حمید کراہ کر بولا اور اس کی آواز بڑی درد ناک ہوگئی۔ وہ اسے چند لمحے مغموم نظروں سے دیکھتا رہا پھر ایک سرد آہ کھینچ کر بولا ۔’’ ان لوگوں نے مجھے پاگل بنا رکھا ہے۔ کہتے ہیں
کہ تم سارجنٹ حمید ہو آہ… کیسا بد نصیب ہوں میں ۔ حالانکہ میری رعایا مجھے شہزاہ کمبخت عرف جادوکی بنسری کے نام سے پکارتی تھی ۔ برا ہوا اس دن کا کہ براؤن پری مجھ پر عاشق ہو کر کوہ قاف اٹھالے گئی …!‘‘
’’کیا واقعی دماغ چل گیاہے !‘‘ صوفیہ کو گھور کر بولی۔
لیکن حمید اس کی پر واکئے بغیر بکتا رہا ۔’’کوہِ قاف پہنچ کر اصل حقیقت کھلی ۔معلوم ہوا کہ براؤن پری عاشق واشق کچھ بھی نہیں ہوئی تھی۔اس نے مجھے جھانسہ دیا تھا ۔واقعہ یوں تھا کہ جب بھی براؤن پری انڈے دیتی تو بچے نکلنے سے پہلے ہی بلیوبلیک دیو اُن کا آملیٹ یامار ملیڈ بنا کر چٹ کر جاتا!‘‘
’’براؤن پری…انڈے …بلیوبلیک دیو!‘‘ صوفیہ بے تحاشہ ہنسنے لگی۔
’’براؤن پری !‘‘حمید نے بکو اس جاری رکھی ۔ ’’ براؤن پری اس قدر تنگ آگئی تھی کہ اس کی ساری فراکیں ڈھیلی ہو کر رہ گئی تھیں۔ آخر اس کی ملاقات ایک تھیٹریکل کمپنی کے منیجر سے ہوگئی۔
اس نامراد نے براؤن پری کو میرا پتہ بتادیا اور کہا کہ میرے علاوہ اور کوئی بلیو بلیک دیوکو نہ مار سکے گا۔ پس وہ Murderss of the worldیعنی قتالہ عالم مجھے کوہ قاف اٹھا لے گئی ۔
قصہ کو تاہ مجھے بلیو بیک دیو سے ایک خونریز جنگ کرنی پڑی اور میں نے اس کے پیٹ میں اپنا فاؤنٹین پین گھونپ کر اس کا خاتمہ کر دیا۔
جب براؤن پری کے انڈے محفوظ ہو گئے تو اس حیلہ جو بہانہ ساز نے مجھے اپنے اوپر عاشق کرانے سے صاف انکار کر دیا کہنے لگی کہ تجھے مس انڈر اور اسٹینڈنگ (misunderstanding) ہوئی تھی۔
میں تو تمہارے والد پر عاشق ہوئی تھی۔ دھو کے میں تمہیں اُٹھا لائی ۔سن کر بڑا تاؤ آیا۔ میں نے کہا تو اچھا اپنی صاحبزادی بلیک اینڈ وائٹ ہی پر عاشق ہونے کا موقع دو۔ وہ اس پر بھی رضا مندنہ ہوئی اور میرا تعارف ایک تحصیل دار کی لڑکی سے کرادیا۔ ‘‘
صوفیہ ہنستی ہوئی ایک آرام کرسی میں ڈھیر ہوگئی۔