4
دوسری صبح نہ جانے کیوں حمید بڑی تھکن محسوس کر رہا تھا۔ ایک عجیب سی الجھن تھی جسے تنہائی کے احساس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ فریدی صبح ہی سے غائب تھا لیکن حمید کے لئے یہ تاکید تھی کہ وہ ایک منٹ کے لیے بھی سر مخدوم کی کوٹھی نہ چھوڑے۔
حمید تنک آ گیا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ جتنی جلد یہاں سے گلو خلاصی ہو اتنا ہی اچھا ہے۔ تین خوبصورت اور نوجوان لڑ کیوں کی موجودگی میں بھی دو اس کوٹھی کے ماحول سے اُکتا گیا تھا۔ بات دراصل یہ تھی کہ وہ ہرکس ونا کس اس کی تنفر ان سے آمیز نظروں سے تنک آگیا تھا۔ حتیٰ کہ نوکر چاکر بھی انہیں گو یا اچھوت سمجھتے تھے۔
حمید نے مسہری سے اُٹھ کر ایک طویل انگڑائی لی اور غسل خانے کی طرف چلا گیا۔ سر مخدوم کے خاندان والوں نے اس کا نوٹس بھی نہ لیا ۔ حمید سوچ رہا تھا کہ اگر فریدی نے اپنے نوکر نہ بلوائے ہوتے تو یہاں بھوکوں بھی مرنا پڑتا۔
منہ پر پانی کے چھینٹے مارتے وقت اُسے صوفیہ کا خیال آیا۔ اس کا قرب حقیقتًا ٹھنڈے پانی کی طرح تازگی بخشتا تھا اور وہ خود اوس میں بھیگی ہوئی ٹھنڈی ہوا معلوم ہوتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ صوفیہ کو یقین آ گیا ہے شاید اب وہ سے بے گانگی کا برتاؤ نہ کرے۔
خوبصورت لڑکیوں کی سرد مہری اُسے بہت گراں گزرتی تھی اور کچھ غیر فطری سی بھی معلوم ہوتی تھی ۔کچھ ایسی ہی غیر فطری جیسے گلاب کا پھول بھنڈیوں کی شکل اختیار کرے ۔
ناشتے کے بعد وہ بر آمد ے میں نکل آیا۔صبح بڑی خوشگوار تھی ۔ دھوپ میں ابھی گرمی نہیں آئی تھی۔حمید نے چاروں طرف دیکھا ۔بر آمدے میں اس کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔وہ ایک آرام کرسی پر بیٹھ کر اس کی پشت سے ٹک گیا۔
نہ جانے کیوں اس کی الجھن اور زیادہ بڑھ گئی۔ ایسا عجیب و غریب اور بے سروپا کیس اسے آج تک نہ ملا تھا۔ کبھی کبھی تو اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے وہ کسی ڈرامے کے ریہرسل میں حصہ لے رہا ہو۔
فریدی کا خیال تھا کہ سرمخد دم نے اپنے لئے پہلے ہی خطرے کی بو سونگھ لی تھی اس لئے اس نے ایک ایسی بے تکی وصیت مرتب کی جس کی بنا پر اس کی موت کو اتفاقیہ نہ سمجھا جاسکے۔
حمید کوفریدی کی اس رائے سے اتفاق تھا مگر کیا سر مخدوم کو یہ بھی معلوم تھا کہ ان کے خاندان ہی کا کوئی آدمی ان کی موت کا خواہاں ہے۔ کیا یہ ممکن ہے …۔
حمید اس کے آگے نہ سوچ سکا کیونکہ اس کی توجہ کا مرکز ایک بھاری بھر کم آدمی بن گیا تھا جو طویل روِش سے گزرتا ہوا بر آمدے ہی کی طرف آرہا تھا۔
اس کے سر پر فلیٹ ہیٹ تھی اور جسم پر ایک بہترین طور پر پریس کیا ہوا سوٹ ۔قمیض کے کالر کی بے داغ سفیدی دورہی سے چمک رہی تھی۔ پورچ میں پہنچ کر وہ اچانک رک گیا۔ وہ حمید کو تحیرآمیز نظروں سے گھور رہا تھا۔
حمید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔ حمید ا سے ہزاروں میں پہچان سکتا تھا۔
’’ہیلوآ فیسر !‘‘ آنے والے نے کسی قسم کے جذبے کا اظہار کئے بغیر کہا۔
بر آمدے میں پہنچ کر ایک بار پھر اس نے حمید کوٹٹو لنے والی نظروں سے دیکھا ۔
’’ ادھر کیسے !‘‘ حمید نے پوچھا۔
اجنبی جواب دینے کے بجائے اُسے تفکر آمیزنظروں سے دیکھتارہا۔
’’کیا تم مجھے یہاں دیکھ کر متحیر ہو!‘‘ حمید نے ہنس کر کہا۔
اجنبی نے لاپروائی کے اظہار کےلئے اپنے شانوی کو جنبش دی اور آہستہ سے بولا۔
’’میں سمجھا ۔لیکن مجھے اس کی پروانہیں!‘‘
’’تم کیا سمجھتے اور تمہیں کس کی پروا نہیں!‘‘
’’دیکھئے یہ معاملہ ایسا نہیں ہے کہ آپ ٹانگ اَڑائیں!‘‘
’’میں بالکل نہیں سمجھا!‘‘ حمید نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
’’کیا میں یہاں آپ ک موجودگی کامطلب پوچھ سکتا ہوں !‘‘ اجنبی کرسی پر بیٹھتا ہوا بولا۔
’’مہمان ہوں!‘‘
’’بہت خوب !‘‘اجنبی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا ۔ ’’ لیکن میں نے پہلے ہی اچھی طرح مضبوطی کر لی تھی !‘‘
حمید کو ایک جھُرجُھر ی سی آئی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔
پھر نہ جانے کدھر سے سر مخدوم کا بھائی ناصر آنکا…اور حمید نے محسوس کیا جیسے اس کو دیکھ کر اس کے چہرے کارنگاڑگیا ہو۔
’’ او ہو. .. آپ ! ‘‘ ناصر آہستہ سے بولا۔
’’جی ہاں میں!‘‘ اجنبی نے گرج کر کہا اور کھڑا ہو گیا۔
’’اوپر چلئے… میرے ساتھ آئیے ! ‘‘ناصر مضطربانہ انداز میں دروازے کی طرف مُڑ تا ہوا بولا ۔