پُراسرار وصیت – ابن صفی

فریدی نے گولی مارنے کی دھمکی ہی دی تھی۔ حقیقت اس کی جیب میں ریو الور موجود نہیں تھا۔ بھاگنے والا دیوارپر چڑھ کر دوسری طرف کو دگیا۔

فریدی جہاں تھا وہیں رُک گیا۔وہ جانتا تھاکہ اب تعاقب فضول ہے۔ کیونکہ احاطے کی دیوار کے نیچے سے چھیول کا گھنا جنگل شروع ہوگیا تھا …جو میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔

حمید اور صوفیہ اُس جے قریب ہی کھڑے ہانپ رہے تھے۔

’’ک…کو…ن…تھا!‘‘ صوفیہ ہانپتی ہوئی بولی۔

’’پتہ نہیں !‘‘ فریدی تیزی سے اس کی طرف مڑا۔’’میں گھر والوں کو چیک کروں گا۔ حمید تم یہیں ٹھہرو۔ادھر کاخیال رکھنا!‘‘

’’سب … سور ہے… ہوں گے!‘‘ صوفیہ نے کہا۔

’’فکر نہ کرو… میرے ساتھ آؤ!‘‘

وہ دونوں چلے گئے ۔ حمید تنہارہ گیا۔ اس نے نوکروں کے کوارٹروں میں روشنی دیکھی ۔

کچھ دروازے چڑ چڑا کر کھلے اور تین لالٹینیں اندھیرے میں جھولنے لگیں ۔

’’کون ہے؟ ‘‘کسی نے چیخ کر کہا۔

حمید کچھ نہ بولا… اور نہ اس نے اپنی جگہ سے حرکت کی … تین آدمی ہاتھوں میں لالٹینیں لئے دور کھڑے بھنبھنا رہے تھے۔ ’’کون ہے؟ ‘‘کسی نے پھر ہانک لگائی اور پھر وہ تینوں حمید کی طرف بڑھے۔ حمید پھر بھی کچھ نہ بولا۔ وہ تینوں

قریب پہنچ گئے ایک نے لالٹین حمید کے چہرے کے برابر اٹھالی اور پھر فوراً ہی اس کا ہاتھ جھک گیا۔

’’اندر آجاؤ !‘‘ حمید نے تحکما نہ لہجے میں کہا ۔’’میں تفریح کر رہا ہوں !‘‘

وہ لالٹین جھلا تے ہوئے چپ چاپ واپس چلے گئے۔

حمید احاطے کی دیوار کی نگرانی کررہا تھا۔اسے یقین تھا کہ وہ بھاگنے والا گھر ہی والوں میں سے کوئی رہا ہوگا سر مخدوم کے خاندان میں اس وقت بھی چار مرد تھے۔ایک تو ناصر …سر مخدوم کا بھائی جس نے آج صبح فریدی سے وصیت کے متعلق گفتگو کی تھی ۔دوسرا شمشاد …سر مخدوم کی بہن کا لڑکا، شاہی فضائیہ میں پائلٹ تھا۔ تیسرا فر حان …ناصر کا لڑکا …چوتھا…ارشاد …شمشاد کا چھوٹا بھائی اور ایم ایس سی کا طالب علم تھا۔

حمید کے ذہن میں ان چاروں کی شکلیں تھیں…اور وہ سوچ رہا تھا کہ ان میں سے کون اتنا پھر تیلا ہو سکتا ہے۔وہ کئی منٹ تک انہیں اپنے ذہن میں پر رکھتا اور تولتا رہا۔وہ سوچ رہا تھا کہ اگر گھر والوں میں سے کوئی غائب ہوا تو وہ شمشاد ہی ہوگا۔

’’خاندان کے سارے لوگ موجود ہیں۔ وہ سب سور ہے تھے ۔ آؤ واپس چلیں !‘‘

بر آمدے میں گھر کے سارے موجود تھے۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جس کے چہرے پر جھلاہٹ کے آثارنہ رہے ہوں۔فریدی اور حمید کو دیکھ کر ان میں سے کئی کی مٹّھیا ں کس گئیں اور ناصر کے چہرے سے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کچا کھا جائے گا۔

’’آخر یہ سب کیا لغویت ہے؟‘‘ شمشاد نے جھلا ئے لہجے میں کہا۔

’’مجھے افسوس ہے!‘‘ فریدی آہستہ سے بولا۔

’’میں پوچھتا ہوں آپ چوروں کی طرح …!‘‘ ناصر کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

’’ٹھہریئے!‘‘ فریدی ہاتھ اٹھا کر بولا ۔ ’’ مجھے پورا یقین ہے کہ سر مخدوم کو جان بوجھ کر ہلاک کیا گیا تھا!‘‘

’’ آپ اس طرح دھمکا کر… نہ جانے کیا کرنا چاہتے ہیں !‘‘ ناصر کی آواز تیز ہوگئی۔

’’ سر مخدوم کو مہمان خانے میں قید کیا گیا تھا! ‘‘فریدی ان کے چہروں کو گھورتا ہوا آہستہ سے بولا ۔

’’ کیا بکواس ہے؟ ‘‘شمشاد بڑبڑایا۔

’’بکواس نہیں! حقیقت ! باہر سے سارے دروازے بولٹ کر دیئے گئے تا کہ وہ نکل کر بھاگ نہ سکیں !‘‘

’’کیا ؟‘‘ ناصر کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔

اور پھر چند لمحوں کے لئے اس قسم کا سناٹا طاری ہو گیا جیسے وہ سب کسی لاش کے قریب کھڑے ہوں۔

فرید کی اور حمید انہیں اسی حال میں چھوڑ کر اپنے کمروں کی طرف چلے گئے۔

Leave a Comment