’’ تو آؤ …میں تمہیں دکھاؤں !‘‘
وہ پھر ملبے کے ڈھیروں کے قریب آگئے ۔ فریدی نے اسے سرخ رنگ کے مین دروازے دکھائے جو دونوں طرف سے بولٹ تھے۔ حمید حیرت سے فریدی کی طرف دیکھنے لگا۔ اس نے بھی اُسے ان دروازوں کو الٹتے پلٹتے دیکھا تھا لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ اس کا مقصد کیا تھا۔
’’کسی نے بھی اس کی طرف دھیان نہیں دیا ! ‘‘ صوفیہ فریدی کی طرف مڑکر آہستہ سے بولی۔
’’بہر حال تم اُسے کیا کہوگی !‘‘
’’ ہو سکتا ہے کہ بعد کو کسی نے بولٹ کر دیا ہو!‘‘
’’نا ممکن… میں نے انہیں ملبے کے نیچے سے نکالا ہے!‘‘
صوفیہ کسی سوچ میں پڑگئی۔ اس نے تھوڑی دیر بعد کہا ۔
’’ کچھ بھی ہو! میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ گھر والوں میں سے کسی نے حرکت کی ہے! ‘‘
’’میں تمہیں یہ منوانا بھی نہیں چاہتا اور نہ فی الحال خود ہی اس پر یقین کرنا چاہتا ہوں۔ ابھی تو میں صرف اتفاقیہ
حادثہ یا سازش پر غور کر رہا ہوں !“
’’اور اس کے لئے آپ نے چوروں کا سا طریقہ اختیار کیا ہے !‘‘صوفیہ نے طنزاً کہا۔
’’ مجبوری ہے….! میں اس سلسلے میں شور وشر نہیں چاہتا !‘‘
’’ کیوں؟‘‘
’’تم لوگوں کی پریشانیاں بڑھ جائیں گی۔ سر مخدوم کی وصیت پبلک میں آجائے گی۔ اخبارات نت نئی حاشیہ آرائیاں کریں گے !‘‘
’’وہ تو ہو کر رہے گا۔ ناصر چچا عدالت کا دروازہ ضرور کھٹکھا ئیں گے !‘‘
’’نا ممکن !‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔’’ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے ۔ اس طرح وہ سر مخدوم کو پاگل ثابت کریں گے جو پورے خاندان کے حق میں اچھا نہ ہو گا ؟“
’’ تو آپ نے چاروں طرف سے پھانس لیا ہے !‘‘
’’میں نے !‘‘ فریدی نے حیرت سے کہا۔ ’’ نہیں تو …!یہ کام تو سر مخد دم ہی نے کیا ہے!‘‘
اچانک فریدی خاموش ہو گیا اور اس کے منہ سے تحیر آمیز آواز نکلی۔
’’ کون ہے ؟‘‘ اس نے بلند آواز میں پوچھا۔
پھر ملبے کے ڈھیروں کی دوسری طرف سے کچھ اس قسم کی آواز آئی پھسل کر گراہو۔ دوسرے ہی لمحے میں ایک تار یک سایہ تیزی سے دوڑتا ہوا منہدی کی باڑھ پھلانگ گیا۔
’’ٹھہرو…ورنہ گولی ماردوں گا!‘‘ فریدی نے گرج کر کہا۔
بھاگنے والا رُ کا نہیں وہ عقبی پارک کی طرف دوڑ رہا تھا۔ فریدی بھی منہدی کی باڑھ پھلانگ چکا تھا۔ اس کےپیچھے حمید بھی لپکا اور شاید صوفیہ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ رہی تھی۔
اصطبل کے قریب اُگی ہوئی مالتی کی بے ترتیب جھاڑیوں نے کئی بار فریدی کی راہ روکی اور اس دوران میں بھاگنے والا احاطے کی دیوار تک پہنچ گیا جس کی اونچائی پانچ یا چھ فیٹ سے زیادہ نہیں تھی ۔ فریدی اب بھی شاید آدھے فر لانگ کے فاصلے پر تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے بھاگنے والا دیوار پر چڑھنے لگا۔