’’ میں یہ تو نہیں کہتا کہ وہ خاندان ہی کا کوئی فرد ہے!‘‘ فریدی نے کہا۔
’’پھر اس طرح چوری چھپے تحقیقات کا کیا مطلب؟‘‘صوفیہ بال کی کھال نکالنے پر تل گئی تھی۔
’’ محض اس لئے کہ میں سرکاری طور پر کام نہیں کر رہا ! ‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ پولیس کو تو یہ باور کرا دیا گیا ہے کہ یہ ایک اتفاقیہ حادثہ ہے !ممکن ہے سر مخدوم نے کسی نئی قسم کی آتش بازی کا تجربہ کیا ہو اور بارود کے ذخیرے تک اس کی چنگاریاں پہنچ گئی ہوں !‘‘
’’ اور یہ قطعی درست نظریہ ہے !‘‘ صوفیہ اپنی پتلون کی جیبیں ٹٹولتی ہوئی بولی ۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوا …!‘‘
’’یہ تم کس طرح کہہ سکتی ہو؟‘‘
’’اس طرح !‘‘ صوفیہ نے جیب سے کوئی چیز نکال کر حمید کے پیر کے پاس داغ دی۔ دھما کہ ہوا اور حمید اچھل کر پیچھے ہٹ گیا۔ صوفیہ ہنسنے لگی۔
’’ شرارت بند کرو! جو میں پوچھ رہا ہوں’ ان کا جواب دو !‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’تم نے کیا پوچھا تھا ؟‘‘
’’ تمہارا شبہ کس پر ہے ؟ ‘‘ فریدی نے کہا۔
’’کسی پر بھی نہیں !‘‘
’’میں گھر والوں کے متعلق نہیں پوچھ رہا ہوں !‘‘
’’ تو کوئی باہری بھی کمپاؤنڈ میں داخل ہونے کی ہمت نہیں کر سکتا ۔ ہمارے کتّے بہت خطر ناک ہیں!‘‘
’’ اس وقت وہ کہاں ہیں ؟ ‘‘فریدی نے طنز آمیز لہجے میں پوچھا۔
’’ اوہ…!‘‘ صوفیہ چونک پڑی ۔ ’’ کہاں ہیں!… واقعی وہ کہاں ہیں ؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا ۔پھر جلدی سے بولی۔ ’’کیا تم نے انہیں مار ڈالا؟‘‘
’’ قطعی نہیں ! لیکن وہ صبح تک گہری نیند سوتے رہیں گے !‘‘
’’ بے ہوش کر دیا ! ‘‘ صوفیہ اچھل کر بولی۔
’’ہاں … اور اسی طرح کوئی دوسرا بھی کمپاؤنڈ میں داخل ہو سکتا ہے!‘‘
صوفیہ سوچ میں پڑگئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔ ’’ تم صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں خاندان ہی کے کسی آدمی پر شبہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی باہری یہ حرکت کیوں کرنے لگا !‘‘
’’تم کافی سمجھ دار ہو … ہاں میں یہی سمجھتا ہوں!‘‘
’’تو پھر… وہ تو میں بھی ہو سکتی ہوں کیونکہ چچا جان مجھے سب سے زیادہ چاہتے تھے … اور اکثر کہا کرتے تھے کہ جائیداد کا سب سے بڑا حصہ مجھے ہی دیں گے!‘‘
’’تم !‘‘ فریدی انتہائی سنجیدہ لہجے میں بولا۔’’ ہر گز نہیں ! تم سر مخدوم کی قاتلہ نہیں ہو سکتیں ۔ اگر تم کسی کوقتل کر سکتی ہو تو پھر فرشتوں پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا !‘‘
’’کیوں …! کوئی پیشانی پر تو کچھ لکھا نہیں ہے!“
’’تمہاری پیشانی پر لکھا ہے۔ صرف ایک لفظ … وفادار …تم سر مخدوم کے لئے اپنی جان بھی دے سکتی تھیں …اور میں نے یہ لفظ پورے خاندان میں صرف تمہاری ہی پیشانی پر دیکھا ہے!‘‘
فریدی کا تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔ صوفیہ کے ہونٹوں کے گوشے کا نپ رہے تھے اور وہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اُن آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی تھی جو پھوٹ بہنے کے لئے اکٹھا ہورہے تھے۔
’’ تم سر مخدوم سے بے انتہا محبت کرتی تھیں !‘‘ فریدی نے تپتے ہوئے لوہے پر آخری ضرب لگائی اور صوفیہ سچ مچ
پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ بہت زیادہ جذباتی معلوم ہوتی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ خود آگاہ بھی ! کیونکہ اس نے فوراً ہی اپنی حالت پر قابو پا لیا اور اب ایسا معلوم ہور ہا تھا جیسے وہ اپنی اس حرکت پر بہت زیادہ شرمندہ ہو۔
’’ پہلے مجھے صرف شبہ تھا لیکن اب !‘‘ فریدی قدرے توقف کے ساتھ بولا ۔’’ لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ سر مخدوم کا جل کر مرنا اتفاقیہ حادثہ نہیں تھا۔ اگر وہ آگ کے نرغے سے نکلنا بھی چاہتے تو نہیں نکل سکتے تھے !‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘صوفیہ چونک پڑی۔
’’ سارے دروازے باہر کی طرف سے بولٹ کر دئیے گئے تھے !‘‘
’’یہ آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں ؟‘‘
فریدی نے فوراً ہی جواب نہیں دیا ۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر بعد پو چھا۔ ’’ باہر کے سارے دروازے سرخ رنگ کے تھے نا !‘‘
’’ہاں …آں …!‘‘