1
’’شام خوشگوار ہے اور پو رچ کی محرابو ں میں جھو لتی ہو ئی بیلیں …‘‘
سر جنٹ حمید اس کت آگے نہ سوچ سکا ۔وہ پو رچ کی محرابوں میں جھو لتی ہو ئی بیلوں کے سلسلے میں کسی نا در تشبیہ کے لئے دیر سے سر ما ررہا تھا ۔جب کو ئی کام نہ ہو تو مینڈ کی کا ذہن بھی شا عر ی کر نے لگتا ہے پھر حمید تو کا فی ذہن تھا اور عر صے سے اُسے کو ئی خوبصورت لڑکی کی نظر نہیں آئی تھی ۔
حسن پر ستوں کی عام نفسات یہ ہے کہ وہ کا لی ،کلو ٹی لڑکیوں سے شروع کر تے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ مشکل پسند ہو تے جا تے ہیں ۔یعنی پھر مشکل ہی سے کو ئی چہرہ ان کے معیار پر پو ر ا اُتر ہے …اور پھر ایک خطر ناک دور کا آغاز ہو تا ہے وہ در یچوں میں جھولتی ہو ئی بیلوں میں حسن تلاش کر نے لگتے ہیں پھر کتّوں کی طرح بھو نکنے میں ایک ہی آدھ ڈگری کا فرق رہ جا تا ہے۔
سر جنٹ حمید نے بڑی اداسی سے جھو لتی ہو ئی بیلو ں پر الوداعی نظر ڈالی اور ایک طو یل انگڑائی لے کر کھڑا ہو گیا ۔
وہ سو چ رہا تھا کہ اس وقت اسے کہاں جانا چا ہئے ۔فر یدی بھی گھر پر مو جو د نہیں تھا ۔ وہ چند لمحے خاموش کھڑا رہا تھا پھر گیراج کی طرف بڑھا ۔
دفعتہً ایک چھو ٹی سی ٹو سیڑکا رکمپا ؤنڈ میں داخل ہو ئی اور اسٹیر نگ کے پیچھے بیٹھی ہو ئی لڑکی پر نظر پڑتے ہی حمید کی عا قبت روشن ہو گئی ۔لڑکی بڑی خوبصورت اور اسما رٹ معلوم ہو تی تھی ۔کا رروک کر وہ نیچے اتری ۔
وہ سفید سلک کی قمیصاور ہلکے سبزرنگ کے پتلون میں ملبوس تھی ۔سنہر رنگ اور گھونگھریا لے بال پشت پر لہریں لے رہے تھے۔کا نوں میں پڑے ہو ئے سو نے کے رِنگ گالوں کے سلگتے ہو ئے ابھاروں کو ہو لے ہو لے چھو ر ہے تھے ۔حمید جہاں تھا وہیں رُک گیا ۔لڑکی تیزی سے اس کی طرف آئی۔
’’انسپکٹر فر یدی !‘‘وہ حمید کو نیچے سے اوپر تک گھو رتی ہو ئی بولی ۔
حمید نے بو کھلاہٹ میں سر ہلا دیا ۔
’’میں آپ سے صاف صاف گفتگوکر نے آئی ہوں…سمجھے!‘‘اس نے سخت لہجے میں کہا۔
’’کیجئے !‘‘حمید نے بڑی سا دگی سے کہا ۔
’’میں …!لیکن نہیں ۔’’وہ اس بولی جیسے بلند آواز میں سوچ رہی ہو ۔پھر اس نے بڑی بڑی پلکیں اوپر اٹھا ئیں ۔اب اس کے چہرے پر ہچکچاہٹ کے آثار تھے ۔اس نے پھر سر جھکا لیا اور سینڈل کی نو ک سے زمین کرید نے لگی ۔
’’نہیں ! میں کچھ نہیں کہنا چا ہتی !‘‘وہ یک بیک اپنی کا ر کی طرف مُڑی ۔
حمید متّحیرانہ انداز میں گردن جھٹک کر اسے گھورنے لگا۔وہ کا ر کے قریب پہنچ کر پھر پلٹی ،ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا ۔ایک پیر اندر تھا اور دوسراباہر…
’’یہ سا زش ہے ! کھلی ہو ئی سا زش !‘‘ وہ حمید کو گھو نسہ دکھا کر بولی اور سیٹ پر دھم سے بیٹھ کر دروازہ اتنے زور سے بند کیا کہ سا ری کمپاؤنڈ میں اس کی آواز پَھیل گئی پھر وہ کا راسٹارٹ کر نے ہی جا رہی تھی کہ حمید اس کی طرف لپکا۔
’’سنئے توسہی …بات کیا ہے ؟‘‘
’’کو ئی بات نہیں !‘‘ وہ چیخ کر بولی ۔’’مجھے ذراہ برابر پر وانہ کر نی چا ہئے لیکن تمہیں زندگی پھر سکون نہیں نصیب ہو گا !‘‘
اس نے کا راسٹارٹ کی …اور حمید کھڑا دیکھتا ہی رہ گیا ۔جب کار پھاٹک سے نکلی تو وہ چو نکا ۔دوسرے لمحے میں وہ تیزی سے گیراج کی طرف بڑھ رہا تھا۔
اس نے کا ر نکالی لیکن وہ سرخ رنگ کی ٹوسیڑ سٹرک پر نظر نہیں آئی۔مختلف سڑکوں پر بڑی دیر تک اسے تلاش کر تا رہا ۔وہ چاہتا تو چورا ہوں کےٹریفک کا نسٹیبلوں سے اس کے متعلق پو چھ سکتا تھا مگر چو نکہ اسے ایک لڑکی ڈرائیوکر رہی تھی اس لئے حمید نے مناسب نہ سمجھا۔
وہ کا فی دیر تک خیالات میں الجھا ہو ا ایک سڑک سے دوسری سڑک پر کا ر دوڑاتارہا ۔لڑکی بڑی خوبصورت تھی اور اس میں ہ بات ضرور تھی جس سے حمید کے ذہن کے کسی گوشے میں ایک عجیب سا احساس کُلبلانے لگتاتھا ۔
وہ خود بھی آج تک اس کیفیت کو کوئینام نہ دے سکا تھا۔بس تھی کو ئی چیز جس کا تجزیہ عام نہیں تھا ۔شاذونادرہی کوئی لڑکی ذہن کے اس ڈھکے چھپے گو شے میں ہلچل مچانے میں کا میاب ہو تی تھی۔کچھ دیر بعد اس کے ذہن پر ایک عجیب سی اُداسی مسلط ہو گئی ۔اداسی میں اکتا ہٹ کے بجا ئے ایک ہلکی سی لذّت تھی ۔