UrduKhaber | Latest News & Updates

ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا۔۔۔

mobile logo

کارگر مکر کا غازہ نہیں ہونے والا
جاں فزا جھوٹ کا چہرہ نہیں ہونے والا

جس کو معلوم ہے دنیا کی حقیقت اے دوست
وہ کبھی طالبِ دنیا نہیں ہونے والا

ایڑیاں اپنی رگڑتے رہو تشنہ کامو !
یوں ہی جاری کوئی چشمہ نہیں ہونے والا

دل میں گر شوقِ سفر جانبِ ادراک نہیں
جھیل رہ جائے گا دریا نہیں ہونے والا

بے دماغوں سے شرافت کی توقع ہے تمھیں
شجرِ بے برگ سے سایہ نہیں ہونے والا

دل تو کہتا ہے کہ ہم لوگ ملیں گے اِک دن
عقل کہتی ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا

اب ہٹا دو رُخِ تاباں سے گھنیری زلفیں
’’اِن چراغوں سے اُجالا نہیں ہونے والا‘‘

کس کو ہے علم بتائے جو یقیں سے راغبؔ
ہونے والا ہے کیا اور کیا نہیں ہونے والا

کلام :افتخار راغبؔ (دوحہ، قطر)

Exit mobile version