بہت انجان ہے اور راہ ہاتھ میں ہے۔
رنجیدہ میں چلی جاتی ہوں۔
احساسی میں اُڑا رہی غم کے فسانے کو
لیکن اب لکھ رہا ہوں داستاں رہ رہی ہوں۔
مسلسل جاگتے گزرتے ہیں فرق کی ساری راتیں۔
خواب میں خواب میں خوابیدہ ہوں۔
حالانکہ میرا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔
مگر میں تکتی میں اسے دُزدیدہ دُزدیدہ
آپ کے یاد کے سائے رہے ہیں صحنِ گلستاں میں
میری پلکیں ہیں عمر بھر نمدیدہ
میں راہِ شوق میں فرحت کسی کو ڈوھونڈنے نکلی۔
سفر دشوار بھی ہے اور ڈھانچہ بھی
کلام :ڈاکٹرفرزانہ فرحت (لندن)