میرا بھی وہ مال ہے۔
میرا بچہ یرغمال ترا ہے۔
کوئی گھر سے تجھے ملے گا۔
تجھ کو لے ڈوبے گا سوال ترا
جس طرح میں نے آپ کو چاہا۔
کون انقلاب گایوں خیال ترا
حسن تجھ کو خدا نے بخشا ہے۔
اس میں کوئی کمال ترا نہیں۔
جانے تو کس کی بدعا میں تھا۔
جو شروع ہو گیا زوال ترا
میں تجھے بدعا نہیں سمجھتا
یونہی قائم رہے جمال ترا
برابر وزنی ستارے اس پر ہیں۔
بہت گر ہی نہیں جانا تھا۔
جیسے گزاری ہے میری زندگی
گزرے ہر ایک سال ترا
جانے کس کی دعا لگی تجھ کو
بھر گیا مچھلیوں سے جال ترا
تو مجھے کال بھی نہیں کرتا
کس طرح پوچھنے سے حال ہے۔
کس طرح میں یہ بوڑھی ماں سے
گولی سے مرگیا ہے لعل تیرا
کلام:ثمینہ رحمت منال