’’چلو ! وا پس چلو !وہ کچھ دیر بعد بولا ۔’’میں اسے وہیں کلب ہی میں مار ڈا لو ں گا۔‘‘
کار پھر شہر کی طرف مڑی۔
’’میرا خیال ہےکہ وہ اب تک مر چکا ہو گا۔‘‘بو ڑھے کے قریب بیٹھے ہو ئے آدمی نےکہا ۔
’’نہیں ‘ وہ تمہاری طرح احمق نہیں ہے ۔‘‘ بوڑھا جھنجھلا کر بولا ۔’’اُس نے ہمیں دھو کہ دیا ہے تو خود بھی غا فل نہ ہو گا۔‘‘
تب تو کلب ہی سے چلا گیا ہو گا ۔‘‘
بحث مت کرو۔‘‘بوڑھے نے گر ج کر کہا ۔’’میں اُسے ڈھو نڈ کر مار دوں گا خوا ہ وہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہ ہو ۔‘‘
عمران چند لمحے بیٹھا رہا ‘ پھر اُٹھ کر تیزی سے وہ بھی با ہر نکلا اور اُس نے کمپا ؤنڈ کے با ہر ایک کار کے اسٹارٹ ہو نے کی آواز سنی ۔ پھر وہ اندر واپس آ گیا۔
’’کہاں بھا گتے پھر رہے ہو ۔‘‘ لیڈی جہا نگیر نے پو چھا ۔اُس کی آ نکھیں نشے سے بو جھل ہو رہی تھیں ۔
’’ذرا کھا نا ہضم کر رہا ہو ں۔‘‘عمران نے اپنی کلا ئی پر بند ھی گھڑی کی طرف دیکھتےہو ئے کہا ۔
لیڈی جہا نگیر آ نکھیں بند کر ہنسنے لگی۔
عمرن کی نظریں بد ستور گھڑی پر جمی رہیں ۔وہ پھر اُٹھا ۔اب وہ ٹیلیفون بو تھ کی طرف جا رہا تھا ۔اُس نے ریسیور اٹھا کر نمبر ڈائل کئے اور ما ؤتھ پیس میں بولا ۔’’ہیلو سو پر فیاض …میں عمران بول رہا ہوں …بس اب روانہ ہو جاؤ۔‘‘
ریسیور ر کھ کر وہ پھر ہال میں چلا آیا ۔لیکن وہ اس بار لیڈی جہا نگیر کے پا س نہیں بیٹھا ۔ چند لمحے کھڑا اِدھر اُدھر دیکھتا رہا ۔ پھر ایک ایسی میز پر جا بیٹھا جہاں تین آدمی پہلے ہی سے بیٹھے ہو ئے تھے اور یہ تینوں اس کے شنا سا تھے ۔اِس لیے اُ نھوں نے بُرا نہیں مانا ۔
شا ئد پندرہ منٹ تک عمران اُن کےسا تھ قہقہے لگا تا رہا ۔لیکن اس دوران باربار اُس کی نظریں دا خلے کے دروازے کی طر ف اُٹھ کر جا تی تھیں ۔
اچانک اُسے دَروازے میں بو ڑھا دکھا ئی دیا جس سے اُس نے چند روز قبل کا غذات والا ہینڈ بیگ چھینا تھا ۔عمران اور زیادہ انہماک سے گفتگو کرنے لگا لیکن تھوڑی دیر بعد اُس نے اپنے دا ہنے شا نے میں کسی چیز کی چبھن محسوس کی ۔اُس نے کنکھیوں سے دا ہنی طرف دیکھا ۔بوڑھا اُس سے لگا ہو اتھا اور اس کا با یاں ہا تھ کو ٹ کی جیب میں تھا اور اسی جیب میں ر کھی ہو ئی کو ئی سخت چیز عمران کے شا نے میں چبھ رہی تھی ۔عمران کو یہ سمجھنے میں دشواری نہ ہوئی کہ وہ ریو الور کی نال ہی ہو سکتی ہے۔
’’عمران صاحب !‘‘بوڑھا خوش اخلاقی سے بولا ۔’’کیا آپ چند منٹ کے لیے با ہر تشریف لے چلیں گے۔‘‘
’’اخاہ ! چچا جان! ‘‘عمران چہک کر بولا ۔’’ضرور ضرور ! مگر مجھے آپ سے شکا یت ہے اِس لیے آپ کو بھی کو ئی شکا یت نہ ہو نی چا ہیے۔‘‘