ٹھیک آٹھ بجے عمران اپنے بغل میں ایک چرمی ہینڈ بیگ دبائے ہوئے ٹپ ٹاپ نائٹ کلب میں پہنچ گیا ۔قریب قریب ساری میزیں بھری ہو ئی تھیں ۔عمران نے بار کے قریب کھڑے ہو کر مجمع کا جا ئزہ لیا ۔آخر اس کی نظریں ایک میز پر رُک گئیں ۔جہاں لیڈی جہا نگیر ایک نو جوان کے سا تھ بیٹھی زردر نگ کی شراب پی رہی تھی۔عمران آہستہ آہستہ چلتا ہو امیز کے قریب پہنچ گیا ۔
’’آہا…مائی لیڈی ‘‘۔وہ قدرے جھک کر بولا ۔
لیڈی جہا نگیر نےدا ہنی بھوں چڑھا کر اُسے تیکھی نظروں سے دیکھا اور پھر مسکرا نے لگی۔
’’ہل…لو …عمران …‘‘ وہ اپنا دا ہنا ہا تھ بڑھا کر بو لی ۔’’تمہارے سا تھ وقت بڑا اچھا کٹتا ہے۔یہ ہیں مِس نسیم ۔خان بہادر ظفرتسنیم کی صا حبزادی اور یہ علی عمران …‘‘
’’ایم۔ایس۔سی ۔پی ۔ایچ ۔ڈی ‘‘ عمران نے احمقوں کی طرح کہا۔
’’بڑی خوشی ہو ئی آپ سے مل کر ‘‘۔ تسنیم بولی ۔لہجہ بے وقوف بنانے کا سا تھا۔‘‘
’’مجھے افسوس ہو ا۔‘‘
’’کیوں!‘‘لیڈی جہا نگیر نے حیرت زدہ آواز میں کہا ۔
’’میں سمجھتا تھا کہ شا ئد ان کا نام گلفام ہو گا۔‘‘
’’کیا بے ہو د گی ہے ۔‘‘لیڈی جہا نگیر جھنجھلا گئی ۔
سچ کہتا ہو ں ۔مجھے کچھ ایسا ہی محسوس ہو ا تھا ۔ تسنیم ان کے لیے قطعی موزوں نہیں ۔یہ تو کسی ایسی لڑکی کا نام ہو سکتا ہے جو تپِ دق میں مبتلا ہو ۔تسنیم بس ’’م‘‘ کی طرح کمر جھکی ہو ئی ۔‘‘
’’تم شائد نشے میں ہو ۔‘‘لیڈی جہا نگیر نے بات بنا ئی ۔’’لو اور پیو۔‘‘
’’فا لودہ ہے ۔‘‘عمران نے پو چھا ۔
’’ڈیر تسنیم ۔‘‘لیڈی جہا نگیر جلدی سے بولی ۔’’تم ان کی باتوں کا برا مت ماننا۔بہت پُر مذاق آدمی ہیں …عمران …بیٹھو نا۔‘‘
’’بُرا ما نے کی کیا بات ہے ۔‘‘عمران ٹھنڈی سا نس لے کر بولا ۔’’میں اُ نھیں زندگی بھر گلفا م کے نام سے یا د رکھوں گا۔‘‘
تسنیم بری طرح جھینپ رہی تھی اور شا ئد اب اسے اپنے رو یے پر افسوس بھی تھا۔
’’اچھا ۔میں چلی ۔ ‘‘تسنیم اُٹھتی ہو ئی بولی ۔
’’میں خود چلا ۔‘‘عمران نے اُ ٹھنے کا ارادہ ظا ہر کر تے ہو ئےکہا ۔
’’ما ئی ڈیرس !تم دو نوں بیٹھو !‘‘ لیڈی جہا نگیر دونوں کے ہا تھ پکڑ کر جھو متی ہو ئی بولی ۔
’’نہیں ! مجھے ایک ضروری کا م یاد آ گیا ہے ۔تسنیم نے آہستہ سے اپنا ہا تھ چھڑاتے ہو ئے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔
’’آئی ایم ساری!‘‘عمران نے کہا اوراس کی نظریں قریب ہی کی ایک میز کی طرف اُٹھ گئیں جہاں ایک جا نی پہچانی شکل کا آ د می اُسے گھو ررہاتھا ۔عمران نے ہینڈ بیگ میز پر سے اُٹھا کر بغل میں دبا لیا ۔پھر دفتعاً سا منے بیٹھا ہو اآدمی اُسے آنکھ ما رکر مسکرا نے لگا۔جواب میں عمران نے باری با ری سے دو نوں آنکھیں ما ر دیں ۔لیڈی جہا نگیر اپنے گلاس کی طرف دیکھ رہی تھی اور شا ئد اس کے ذہن میں کوئی اتنہا ئی رُومان انگیز جملہ کلبلا رہا تھا۔
’’میں ابھی آیا ۔‘‘عمران نے لیڈی جہا نگیر سے کہا اور اس آدمی کی میز پر چلا گیا۔
’’لا ئے ہو ۔‘‘ اُس نے آ ہستہ سے کہا
’’یہ کیا رہا ۔‘‘عمران نے ہینڈ بیگ کی طرف اشارہ کیا ۔پھر بولا ۔’’تم لا ئے ہو۔‘‘
’’ہاں آں ۔‘‘اُس آدمی نے اپنے لا ئے ہوئے ہینڈ بیگ پر ہا تھ رکھتے ہو ئے کہا ۔
’’تو ٹھیک ہے ۔‘‘عمران نے کہا ۔’’اُسے سنبھا لو اور چپ چاپ کھسک جاؤ۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘وہ اُسے گھورتا ہو ا بولا۔
’’کپتان فیاض کو مجھ پر شبہ ہو گیا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اُس نے کچھ آدمی میری نگرانی کے لیے مقر کر دیئے ہوں۔‘‘
’’کوئی چال۔‘‘
’’ہر گز نہیں ۔آ ج کل مجھے رو پیوں کی سخت ضرورت ہے ۔‘‘
’’اگر کوئی چال ہوئی تو تم بچو گے نہیں ۔‘‘آدمی ہینڈ بیگ لے کر کھڑا ہو گیا۔
’’یاررو پئے میں نے اپنا مقبرہ تعمیر کرا نےکے لیے نہیں حا صل کئے ۔‘‘ عمران نے آہستہ سے کہا پھر وہ آدمی کو باہر جاتے دیکھتا رہا ۔اُس نے ہو نٹوں پر شرارت آمیز مسکرا ہٹ تھی ۔وہ اس آدمی کا دیا ہوا ہینڈ بیگ سنبھا لتا ہوا پھر لیڈی جہا نگیر کے پاس آ بیٹھا۔
وہآدمی ہینڈ بیگ لئے ہوئے جیسے ہی با ہر نکلا کلب کی کمپا ؤ نڈ کے پار ک میں سے دو آدمی اُس کی طرف بڑھے ۔
’’کیا رہا ۔‘‘ ایک نے پو چھا۔
’’مل گیا ۔‘‘بیگ وا لے نے کہا ۔
’’کا غذات ہیں بھی یا نہیں ۔‘‘
’’میں نے کھول کر نہیں دیکھا ۔‘‘
’’گدھے ہو ۔‘‘
’’وہاں کیسے کھول کر دیکھتا۔‘‘
’’لاؤ …اِدھر لاؤ۔‘‘اُس نے ہینڈ بیگ اپنے ہا تھ میں لیتے ہو ئے کہا ۔پھر وہ چو نک کر بولا ۔’’ اُوہ!یہ اتنا وزنی کیوں ہے ؟‘‘ اس نے بیگ کو کھو لنا چا ہا ۔لیکن اس میں قفل لگا ہوا تھا ۔
’’چلے یہاں سے ۔‘‘تیسرا بولا ۔’’ یہاں کھو لنے کی ضرورت نہیں ۔‘‘
’’کمپا ؤنڈ کے باہر پہنچ کر وہ ایک کار میں بیٹھ گئے ۔اُن میں سے ایک کار ڈرائیو کر نے لگا۔
شہر کی سڑکوں سے گز رکر کا رایک ویران را ستے پر چل پڑی ۔آبادی سے نکل آ نے کے بعد انھوں نے کار کے اندر روشنی کردی۔
ان میں سے ایک جو کا نی معمر تھا اپنے دو نوں سا تھیوں سے زیادہ طا قتور معلوم ہو تا تھا ایک پتلے سے تار کی مدد سے ہینڈ بیگ کا قفل کھو لنے لگا اور پھر جیسے ہی ہینڈ بیگ کا قفل فلیپ اٹھا یا گیا پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے دو نوں آدمی بے سا ختہ اُ چھل پڑے ۔کوئی چیز بیگ سے اُ چھل کر ڈرا ئیور کی کھو پڑی سے ٹکرائی اور کار سڑک کے کنا رے کے ایک درخت سے ٹکراتے بچی ۔رفتار زیادہ تیز نہیں تھی ورنہ کار کے لڑ جا نے میں کوئی دقیقہ باقی نہیں رہ گیا تھا ۔ تین بڑے بڑے مینڈک کا ر میں اُ چھل رہے تھے۔
بوڑھے آدمی کے حلق سے ایک مو ٹی سی گالی نکلی اور دوسرا ہنسنے لگا۔
’’شٹ اَپ ‘‘بوڑھا حلق کے بل چیخا ۔’’تم گدھے ہو ! تمہا ری ہی بدو لت …‘‘
’’جناب میں کیا کرتا ۔ میں اُسے وہاں کیسے کھو ل سکتا تھا ۔اس کا بھی تو خیال تھا کہ کہیں پو لیس نہ لگی ہو ۔‘‘
’’بکواس مت کرو ۔میں پہلے ہی اطمینان کر چکا تھا ۔وہاں پو لیس کا کوئی آدمی نہیں تھا ۔ کیا تم مجھے معمو لی آد می سمجھتے ہو۔اب اس لو نڈ ے کی موت آ گئی ہے …اے …تم گا ڑی روک دو ۔‘‘ کار رُک گئی ۔
بو ڑھا تھوڑی دیر تک کچھ سو چتا رہا پھر بولا ۔’’ کلب میں اُس کے سا تھ اور کون تھا ۔‘‘
’’ایک خو بصورت سی عورت ۔دونوں شراب پی رہے تھے۔‘‘
’’ غلط ہے ۔ عمران شراب نہیں پیتا۔‘‘
’’پی رہا تھا جناب۔‘‘
بو ڑھا پھر کسی سوچ میں پڑ گیا ۔