’’ہمیں آج یہ معا ملہ طے ہی کردینا ہے‘‘۔جیکٹ والا بولا ۔’’یہ بھی بڑی اچھی بات ہے کہ وہاں پو لیس کا پہرہ نہیں ‘‘۔
لیکن اُس رات کو ہمارے علاوہ اور کوئی بھی وہاں تھا۔مجھے تو اُ س آدمی پر شبہ ہےجو با ہر والے کمرے میں رہتا ہے‘‘۔
’’اچھا اُٹھو ۔ ہمیں وقت نہ بر باد کر نا چا ہیے ‘‘۔
’’کچھ پی تو لیں ۔میں بہت تھک گیا ہو ں ۔ کیا پیو گے ۔و ہسکی یا کچھ اور‘‘
پھر وہ دونوں پیتے رہے اور عمران اُٹھ کر قر یب ہی کےایک پبلک ٹیلیفون بو تھ میں چلا گیا ۔ دوسرے لمحے میں وہ فیاض کے نجی فون نمبر ڈائل کر رہا تھا۔
’’ہیلو !سوپر …ہاں میں ہی ہو ں۔ خیر ت کہا ں ‘زکام ہوگیا ہے…پو چھنا یہ ہے کہ کیا میں جو شاندہ پی لوں …اَرےتواس میں ناراض ہو نے کی کیا بات ہے …دیگر احوال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کے اند ر اندر اُس عمارت کے گرد مسلح پہرہ لگ جانا چا ہیے…بس بس آگے مت پوچھو ۔ اگر اس کے خلاف ہوا توآئندہ شرلاک ہو مز ڈا کڑ واٹسن کی مدد نہیں کرے گا‘‘۔
ٹیلیفون بوتھ سے واپس آکر عمران نے پھر اپنی جگہ سنبھال لی۔ جیکٹ والا آدمی دو سرے آدمی سے کہہ رہا تھا ۔
’’بو ڑھا ! پاگل نہیں ہے اس کے انداز ے غلط نہیں ہوتے‘‘۔
’’اُو نہہ ہو گا‘‘۔دوسری میز پر خالی گلاس پٹختا ہوا بولا ۔ صحیح ہو یاغلط ۔سب جہنم میں جا ئے لیکن تم اپنی کہو۔ اگر اس لڑکی سے پھر ملاقات ہو گئی تو کیا کروں گے‘‘۔
’’اُوہ !‘‘جیکٹ والا ہنسنے لگا ۔’’کہہ دوں گا معاف کیجیے گا میں نےآپ کو پہچا نا نہیں‘‘۔
’’ٹھیک !لیکن اگر وہ پو لیس تک پہنچ گئی تو‘‘۔
’’وہ ہر گز ایسا نہیں کر سکتی ۔بیان دیتے وقت اُسے اس کا اظہار بھی کرنا پڑے گا کہ وہ ایک رات میرے سا تھ اس مکان میں بسر کر چکی ہے اور پھر میرا خیا ل ہے کہ شائد اس کا ذہن کنجی تک پہنچ ہی نہ سکے‘‘۔
عمرا ن کافی کاآرڈردےکر دوسرے چیو نگم سے شغل کر نے لگا ۔اُس کا چہرے سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ بار کےما حول سے قطعی بے تعلق ہو لیکن یہ حقیقت تھی کہ ان دونوں کی گفتگو کا ایک ایک لفظ اس کی یا د دا شت ہضم کرتی جا رہی تھی۔
’’تو کیا آج بو ڑھا آئے گا‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا۔
’’ہاں !آج شائد فیصلہ ہو جائے ‘‘۔ جیکٹ والے نے کہا۔
دونوں اُٹھ گئے ۔عمران نے اپنے حلق میں بچی کھچی کا فی انڈیل لی ۔بل وہ پہلے ہی ادا کر چکا تھا۔دونوں با ہر نکل کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے اور پھر انھوں نے ایک ٹیکسی رکوائی۔کچھ دیر بعد اُن کی ٹیکسی کے پیچھے ایک دوسری ٹیکسی بھی جا رہی تھی۔جس کی پچھلی سیٹ پر عمران اکڑوں بیٹھا ہو ااپنا سر کھجا رہا تھا ۔حماقت ا نگیز حر کتیں اس سے اکثر تنہائی میں بھی سرزد ہو جا تی تھیں۔
مار کھیم لین میں پہنچ کر اگلی ٹیکسی رُک گئی ۔وہ دو نوں اُ تر ےاور ایک گلی میں گھس گئے۔یہاں عمران ذرا سا چوک گیا۔اُس نے انھیں گلی میں گھستے ضرور دیکھا تھا لیکن جتنی دیر میں وہ ٹیکسی کا کرایہ چکاتا ‘انھیں کھو چکاتھا۔
گلی سنسان پڑی تھی ۔آگے بڑھا تو دا ہنے ہا تھ کو ایک دوسری گلی دکھا ئی دی ۔اب اُس دوسری گلی کو طے کر تے وقت اسے احساس ہو ا کہ وہا ں تو گلیوں کا جال بچھا ہوا تھا۔لہٰذا سر مارنا فضول سمجھ کر وہ پھر سڑک پر آگیا ۔وہ اُس گلی کےسر ے سےتھوڑے ہی فاصلے پررُک کر ایک بک اسٹال کے شو کیس میں لگی ہوئی کتا بوں کے رنگا رنگ گرد پو ش دیکھنے لگا ۔شا ئد پا نچ ہی منٹ بعد ایک ٹیکسی ٹھیک اسی گلی کے دہا نے پر رُکی اور ایک معمر آدمی اتر کر کرا یہ چکانے لگا۔اس کے چہرے پر بھو رے رنگ کی داڑھی تھی لیکن عمران اس کی پیشانی کی بناوٹ دیکھ کر چو نکا۔آنکھیں بھی جانی پہچانی معلوم ہو رہی تھیں ۔
جیسے ہی وہ گلی میں گھسا عمران نے بھی ا پنے قدم بڑھائے ۔کئی گلیوں سے گزرنے کے بعد بو ڑھا دَروازے پر رُک کر دستک د ینے لگا۔عمران کافی فا صلے پر تھا اور تا ر یکی ہو نے کی وجہ سے دیکھ لیے جانے کا بھی خدشہ نہیں تھا۔وہ ایک دیوار سے چپک کر کھڑا ہو گیا۔ادھر وہ دروازہ کھلا اور بو ڑھا کچھ بڑبڑاتا ہو ا اندر چلاگیا۔دروازے پھر بند ہو گیا۔عمارت دو منزلہ تھی۔عمران سر کھجا کر رہ گیا لیکن وہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔اندر داخل ہونے کے امکانات پر غور کر تا ہو ادروازے تک پہنچ گیااور پھر اس نے کچھ سوچے سمجھےبغیر دروازے سے کان لگا کر آہٹ لینی شروع کردی ۔لیکن شائد اس کا ستارہ گردش میں آگیا تھا ۔ دوسرے ہی لمحے میں دروازے کے دونوں پٹ کھلے اور دو آدمی اس کے سا منے کھڑے تھے ۔اندر کی مدھم رو شنی میں ان کے چہرے تو نہ دکھا ئی د یئے لیکن وہ کافی مضبوط ہاتھ پیر کے معلوم ہو تے تھے۔
’’کون ہے؟‘‘اُن میں سے ایک نے تحکمانہ لہجے میں پو چھا۔
’’مجھے دیر تو نہیں ہوئی ‘‘۔عمران تڑ سے بولا۔
دوسری طرف سے فوراً ہی جواب نہیں ملا ۔غا لباًیہ سکوت ہچکچا ہٹ کا ایک و قفہ تھا۔
’’تم کون ہو ؟‘‘دوسری طرف سے سوال پھر دُہر ا یا گیا۔
’’تین سوتیرہ ؟‘‘عمران نے احمقوں کی طرح بک دیا ۔لیکن دوسرے لمحے کا اُسے دھیان نہیں تھا ۔اچا نک اُسے گر یبان سے پکڑکر اندر کھینچ لیا گیا ۔ عمران نے مزاحمت نہیں کی۔
’’اب بتاؤ تم کون ہے؟‘‘ایک نے اسے دھکّا دے کر کہا۔
’’اندر لے چلو‘‘۔دوسرا بولا۔
دونوں اُسے دھکّے دیتے ہوئے کمرے میں لے آئے جہاں سات آدمی ایک بڑی میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے اور وہ بو ڑھا جس کا تعا قب کر تا ہو اعمران یہاں تک پہنچا تھا شا ئد سر گروہ کی حیثیت ر کھتا تھا کیو نکہ وہ میز کے آخر ی سر ے پر تھا۔
وہ سب عمران کو تحیر آمیز نظروں سے دیکھنے لگے ۔لیکن عمران دو نوں آد میوں کے در میان کھڑا ہو ا چمڑے کی جیکٹ والے کو گھور رہا تھا۔
’’آہا‘‘ ۔یکایک عمران نے قہقہہ لگایا اور پھر اکر اُس سے کہنے لگا۔’’میں تمہیں کبھی نہیں معاف کروں گا ۔تم نے میری محبوبہ کی زندگی بر با د کردی‘‘۔
’’کون ہو تم ۔ میں نہیں پہچا نتا ‘‘۔اُس نے تحیر آمیز لہجے میں کہا۔
’’لیکن میں تمہیں اچھی طرح پہچا نتا ہوں ۔تم نے میری محبوبہ پر ڈورے ڈالے ‘میں کچھ نہیں بولا۔تم نے ایک رات اس کے سا تھ بسر کی میں پھر بھی خاموش رہا لیکن میں اسے کسی طرح نہیں بردا شت کر سکتا کہ تم اُس سے ملنا جلنا ہی چھوڑ دو ‘‘۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو‘‘۔دفتعاًبوڑھے نے سوال کیا اور اُن دونوں کو گھورنے لگا جو عمران کو لائے تھے۔انھوں نے سب کچھ بتادیا ۔اس کے دَوران میں عمران برابراپنے مخاطب کو گھورتا رہا ۔ایسا معلوم ہورہا تھاجیسے دوسرے لو گوں سے اسے وا قعی کوئی سرو کار نہ ہو۔
پھر اچا نک کسی کا گھو نسہ عمران کے جبڑے پر پڑا اور وہ لڑ کھڑا تا ہو ا کئی قدم پیچھے کھسک گیا۔اُس نے جھک کر اپنی فلٹ ہیٹ اٹھائی اور اُسے اس طرح جھاڑنے لگا جیسے وہ اتفا قاً اُس کے سرسے گر گئی ہو۔وہ اب بھی جیکٹ والے کو گھورے جا رہا تھا۔
’’میں کسی عشقیہ ناول کے سعادت مندر قیب کی طرح تمہارے حق میں دستبردار ہو سکتا ہوں ‘‘۔عمران نے اس سے کہا۔
’’بکواس بند کرو‘‘۔بوڑھا چیخا ۔’’میں تمہیں اچھی طرح جا نتا ہوں ۔کیا اس رات کو تم ہی وہا ں تھے‘‘۔
عمران نےاس کی طرف دیکھنے کی بھی ز حمت گوارانہ کی۔
’’یہ زندہ بچ کر نہ جا نے پائے ‘‘۔بو ڑھا اُچھل کر کھڑا ہو تا ہوا بولا۔
’’مگر شرط یہ ہے‘‘۔عمرا ن مسکرا کر بولا۔’’میت کی بے حرمتی نہ ہونے پائے‘‘۔
اس کے حماقت آمیز اطمینان میں ذرّہ برابر فرق نہیں ہونے پایا تھا۔ تین چار آدمی اس کی طرف لپکے لیکن عمران دوسرے ہی لمحے میں ڈپٹ کربولا ۔’’ہینڈزاَپ ۔۔۔۔۔‘‘ساتھ ہی اس کا ہاتھ جیب سے نکلا ۔اس طرح جھپٹنے والے ۔پہلے تو ٹھٹکے لیکن پھر انھوں نے بے تحا شہ ہنسنا شروع کر دیا ۔عمران کے ہاتھ میں ریوالور کی بجائے ربر کی ایک گڑیا تھی۔پھر بو ڑھے کی گر جدار آواز نےانھیں خاموش کردیا اوروہ پھر عمران کی طرف بڑھے ۔جیسے ہی اُس کے قریب پہنچے عمران نے گڑیا کا پیٹ دبا دیا ۔ اس کا منہ کھلا اور پیلے رنگ کا گہرا غبار اس میں سے نکل کر تین چار فٹ کے دا ئرے میں پھیل گیا۔وہ چاروں طرف بے تحا شہ کھا نستے ہوئے وہیں ڈ ھیر ہو گئے۔
’’جائے نہ پائے‘‘۔بوڑھا پھر چیخا۔
دوسرے لمحے میں عمران نے کوئی وزنی چیز الکڑک لیمپ پر کھینچ ماری ۔ایک زور دار آواز کےساتھ بلب پھٹا اور کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔