عمرانفٹ پا تھ پر تنہا کھڑا تھا ۔ را بعہ کی کا ر جا چکی تھی۔اُس نے جیب سے ایک چیو نگم نکالا اور منہ میں ڈال کر دا نتوں سے اُسے کچلنے لگا۔غور و فکر کے عا لم میں چیو نگم اس کا بہتر ر فیق ثا بت ہو تا تھا۔جاسوسی نا دلوں کے سراغرسا نوں کی طرح نہ اسے سگار سے د لچسپی تھی اورنہ پا ئپ سے ‘شراب بھی نہیں پیتا تھا۔
اُس کے ذ ہن میں اُس وقت کئی سوال تھے اور وہ فٹ پاتھ کے کنارے پر اس طرح سے کھڑا ہوا تھا جیسے سڑک پار کر نے کا ارادہ رکھتا ہو۔مگر یہ حقیقت تھی کہ اُس کے ذہن میں اس قسم کا کوئی خیال نہیں تھا۔
وہ سوچ رہا تھا کہ ان معاملات سے سر جہا نگیر کا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔دوسری لاش کے قریب سے اُسے کاغذ کا جو ٹکڑا ملاتھا وہ سر جہا نگیر ہی کے را ئیٹنگ پیڈ کا تھا‘‘
رابعہ سے اُس پُرا سرار نو جوان کی ملا قات بھی سر جہا نگیر ہی کے یہاں ہوئی تھی اور لیڈی جہا نگیر نےجس خو بصورت نو جوان کا تذکرہ کیا تھا وہ اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا لیکن لیڈی جہا نگیر بھی اُس سے واقف نہیں تھی۔
لیڈی جہا نگیر کی یہ بات بھی سچ تھی کہ اگر وہ شہر کے کسی ذی حیثیت خا ندان کا فر د ہوتا تو لیڈی جہا نگیر اُس سے ضرور واقف ہو تی۔فرض کیا اگر لیڈی جہا نگیر بھی کسی قسم کی سا زش میں شریک تھی تو اُس نے اس کا تذ کرہ عمران سے کیوں کیا۔
ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی دوسری زندگی سے واقف نہ رہی ہو لیکن پھر بھی سوال پیدا ہو تا ہے کہ اُس نے تذ کرہ کیا ہی کیوں؟وہ کوئی ایسی اہم بات نہ تھی۔سیکڑوں نو جوا ن لڑکیوں کے چکر میں رہے ہوں گے چا ہے وہ پانی بھرنے کے مشکیزے سے بھی بدتر کیوں نہ ہو ں ۔
پھر ایک اور سوال اُس کےذہن میں اُبھرا ۔ آخر اس مجا ور نے پو لیس کو را بعہ کے متعلق کیوں نہیں بنایا تھا۔ قبر اور لاش کے متعلق تواس نے سوچنا ہی چھوڑدیا تھا ۔ فکر اس بات کی تھی کہ وہ لوگ کون ہیں اور اس مکان میں کیوں د لچسپی لے رہے ہیں ۔
اگر وہ سر جہا نگیر ہے تو اُس کا اِس عما رت سے کیا تعلق؟سر جہا نگیر سے وہ ا چھی طرح واقف تھا لیکن یوں بھی نہیں کہ اُس پر کسی قسم کا شبہہ کر سکتا ۔سر جہا نگیر شہر کے معّز ز ترین لو گوں میں سے تھا ۔نہ صرف معّزز بلکہ نیک نام بھی۔
تھوڑی دیر بعد عمران سڑک پار کرنے کا ارادہ کرہی رہا تھا کہ ایک کا ر رُکتی ہوئی اُس کی راہ میں حا ئل ہوگئی ۔یہ رابعہ کی کار تھی۔
’’خدا کا شکر ہے کہ آپ مِل گئے ‘‘۔اُس نے کھڑکی سے سر نکا ل کر کہا۔
’’میں جا نتا تھا کہ آپ کوپھر میری ضرورت محسوس ہو گی‘‘۔عمران نے کہا اور کار کا دَروازہ کھول کر را بعہ کے برابر بیٹھ گیا ۔ کار پھر چل پڑی۔
’’خدا کے لیے مجھے بچا ئیے ‘‘را بعہ نے کا نپتی ہوئی آواز میں کہا ۔’’میں ڈوب ر ہی ہوں‘‘۔
’’کیا آپ مجھے تنکا سمجھتی ہیں ‘‘۔عمران نے قہقہہ لگا یا۔
’’خدا کے لیے کچھ کیجیے ۔ا گر ڈ یڈی کو اس کا عالم ہو گیا تو…؟‘‘
’’نہیں ہو نے پائے گا‘‘۔عمران نے سنجیدگی سے کہا ۔’’آپ لو گ مردوں کے دوش بدوش جھک مارنے میدان میں نکلی ہیں ۔مجھے خوشی ہے ۔لیکن آپ نہیں جا نتیں کہ مرد ہر میدان میں آپ کو اُلّوبنا تا ہے۔و یسے معاف کیجیے گا مجھے نہیں معلوم کہ اُلّو کہ مادہ کو کیا کہتے ہیں‘‘۔
رابعہ کچھ نہ بولی اور عمران کہتا ر ہا ۔ خیر بھول جا یئے اس بات کو ۔ میں کو شش کروں گا کہ اس ڈرا مے میں آپ کا نام نہ آنے پا ئے۔اب تو آپ مطمٔن ہیں نا۔ گاڑی رو کئے ۔ اچھا …ٹاٹا…‘‘
’’اَرے ‘‘۔رابعہ کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اُس نے پو رے بریک لگاد یئے۔
’’کیا ہوا ‘‘۔عمران گھبرا کر چا روں طرف دیکھنے لگا۔
’’وہی ہے‘‘۔ را بعہ بڑ بڑا ئی ۔’’اُتر یئے ۔میں اُسے بتا تی ہوں‘‘۔
’’کون ہے ۔کیا بات ہے ؟‘‘
’’وہی جس نے مجھے اِس مصیبت میں پھنسایا ہے‘‘۔
’’کہاں ہے ؟‘‘
’’وہ …اُس بار میں ابھی ابھی گیا ہے ۔وہی تھا ۔چمڑے کی جیکٹ اور کتھئی پتلون میں ‘‘۔
’’اچھا تو آ پ جا یئے۔میں دیکھ لو گا ‘‘۔
’’نہیں میں بھی…‘‘
’’جاؤ‘‘۔عمران آنکھیں نکال کر بولا ۔را بعہ سہم گئی۔ا س وقت احمق عمران کی آنکھیں اُسے بڑی خوفناک معلوم ہو ئیں ۔اُس نے چپ چاپ کار موڑ لی۔
عمران بار میں گھسا ۔بتا ئے ہو ئے آ دمی کو تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی ۔وہ ایک میز پر تنہا بیٹھا تھا۔وہ گٹھلیے جسم کا ایک خوشر و جوان تھا ۔ پیشا نی کشا دہ اور چوٹ کےنشا نات سے داغدار تھی۔شائد وہ سر کو دا ئیں جا نب تھوڑا سا جھکائے ر کھنے کا عادی تھا۔عمران اس کے قر یب ہی ایک میز پر بیٹھ گیا۔
ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے اُسے کسی کا انتظار ہو ۔کچھ مضطرب سا بھی تھا ۔عمران نے پھر ایک چیو نگم نکال کر منہ میں ڈال لیا۔اس کا انداز غلط نہیں تھا ۔ تھوڑی دیر بعد ایک آدمی اور چمڑے کی جیکٹ والے کے پاس آکر بیٹھ گیا اور پھر عمران اس کے چہرے سے اضطراب کے آثار غائب ہو تے دیکھے‘‘۔
’’سب چو پٹ ہو رہا ہے ‘‘۔چمڑے کی جیکٹ والا بولا۔
’’اُس بڈھے کو خبط ہو گیا ہے‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا
عمران اُن کی گفتگو صاف سن سکتا تھا ۔ جیکٹ والا چند لمحے پر خیا ل انداز میں اپنی ٹھوڑی کھجلاتا رہا پھر بولا۔’’مجھے یقین ہے کہ اس کا خیال غلط نہیں ہے۔وہ سب کچھ وہیں ہے لیکن ہمارے سا تھی بودے ہیں‘‘۔
’’آوازیں سنتے ہی اُن کی روح فنا ہو جاتی ہے‘‘۔
’’لیکن بھئی …آخر وہ آوازیں ہیں کیسی؟‘‘
’’کیسی ہی کیوں نہ ہو ں ۔ہمیں ان کی پر واہ نہ ہونی چا ہیے‘‘۔
’’اور وہ دونوں کس طرح مرے؟‘‘
’’یہ چیز ‘‘۔ جیکٹ والا کچھ سو چتا ہو ا بولا ۔’’ابھی تک میر ی بھی سمجھ میں نہیں آسکی۔مرَتا وہی ہے جو کام شروع کرتاہے ۔یہ ہم شروع ہی سے دیکھتے آئے ہیں‘‘۔
’’پھر ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چا ہیے ‘‘۔دوسرے آدمی نے کہا