نوکر نے ایک پن کی مدد سے کاغذ اس کے سینے پر لگا دیا۔
’’اب یاد رہے گا۔‘‘عمران نے کہا اور کمرے سے نکل گیا۔
راہد اری طے کر کے وہ ڈرائنگ روم میں پہنچا ۔ یہاں تین لڑکیاں بیٹھی تھیں ۔
’’واہ عمران بھائی ‘‘۔ان میں سے ایک بولی۔’’خوب انتظار کرایا ۔کپڑے پہننے میں اتنی دیر لگا تے ہیں ‘‘۔
اُوہ ‘تو کیاآپ میراانتظار کر رہی تھیں ‘‘۔
’’کیوں ؟کیا آپ نے ایک گھنٹہ قبل پکچر چلنے کا وعدہ نہیں کیا تھا‘‘۔
’’پکچر چلنے کا ۔مجھے تو یاد نہیں ۔میں تو سلیمان کےلیے ……….‘‘ عمران اپنے سینےکی طرف اشارہ کر کے بو لا ۔
’’یہ کیا ؟‘‘وہ لڑکی قریب آکر آگے کی طرف جھکتی ہوئی بولی ۔’’بیس ہزار کا لٹّھا اور بو سکی ۔یہ کیا ہے ۔اس کا مطلب ؟‘‘
پھر وہ بے تحاشہ ہنسنے لگی ۔عمران کی بہن ثریّانے بھی اُٹھ کر دیکھا لیکن تیسری بیٹھی رہی۔وہ شائد ثریا کی کوئی نئی سہیلی تھی۔
’’یہ کیا ہے ؟‘‘ثریّا نے پو چھا۔
’’سلیمان کے شلوار اور قمیص کا کپڑا لینے جارہا ہوں‘‘۔
لیکن ہم سے کیوں وعدہ کیا تھا ۔‘‘وہ بگڑکر بولی۔
’’بڑی مصیبت ہے۔‘‘ عمران گردن جھٹک کر بولا ۔’’تمہیں سچا سمجھوں یا سلیمان کو۔‘‘
اُسی کمینے کو سچا سمجھٔے ۔میں کون ہوتی ہوں‘‘۔ثریا نے کہا ۔پھر اپنی سہیلیوں کی طرف مڑکر بولی ۔’’اکیلے ہی چلتے ہیں ‘‘۔
’’آپ ساتھ بھی گئے تو شرمندگی ہی ہوگی ۔کر بیٹھیں گے کوئی حماقت !‘‘۔
’’ذرادیکھئے آپ لوگ !‘‘عمران رونی صورت بنا کر درد بھری آواز میں بولا ۔’’یہ میری چھوٹی بہن ہے۔مجھے احمق سمجھتی ہے ۔ثریا میں بہت جلد مر جاؤں گا ۔ کسی وقت جب بھی ٹائی غلط بندھ گئی اور بیچارے سلیمان کو کچھ نہ کہو ۔وہ میرا محسن ہے ۔اُس نے ابھی ابھی میری جا ن بچائی ہے‘‘۔
’’کیا ہوا تھا ؟‘‘ثریا کی سہیلی جمیلہ نے گھبرائی ہوئی آواز میں پو چھا ۔
’’ٹائی غلط بندھ گئی تھی‘‘۔عمران انتہائی سنجیدگی سے بو لا ۔
جمیلہ ہنسنے لگی ۔لیکن ثریا جلی کٹی بیٹھی رہی ۔اسکی نئی سہیلی متحیرانہ انداز میں اُس سنجیدہ ترین احمق کو گھور رہی تھی ۔
’’تم کہتی ہوتو میں پکچر چلنے کے تیار ہوں ‘‘۔عمران نے کہاں ۔’’لیکن واپسی پر مجھے یا د دلا دینا کہ میرے سینے پر ایک کاغذ پن کیا ہو اہے ‘‘۔
’’میں تو ہر گز نہ جا ؤں گی ‘‘۔ثریا نےکہا ۔
’’نہیں !عمران بھائی کے بغیر مزہ نہ آئے گا ‘‘۔جمیلہ نے کہا ۔
’’جیو !‘‘ عمران خوش ہو کر بولا ۔‘‘میرا دِل چاہتا ہے کہ تمہیں ثریا سے بدل لو ں۔کاش تم میری بہن ہوتیں ۔یہ نک چڑھی ثریا مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی ‘‘۔
’’آپ خود نک چڑھے ۔ آپ مجھے کب اچھے لگتے ہیں ‘‘۔ثریا بگڑ کر بو لی ۔
’’دیکھ رہی ہو ۔یہ میری چھوٹی بہن ہے‘‘۔
’’میں بتاؤں ‘‘۔جمیلہ سنجیدگی سے بو لی ۔’’آپ یہ کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیجیے ۔میں یاد دلادوں گی ‘‘۔
عمران نے کاغذ نکال کر جیب میں رکھ لیا ۔ثریا کچھ کھنچی کھنچی سی نظر آنے لگی تھی ۔وہ جیسے ہی باہر نکلے ایک موٹر سائیکل پورٹیکومیں آکررُکی جس پر ایک باو قار اور بھاری بھر کم آدمی بیٹھا ہوا تھا۔
’’ہیلو !سو پر فیاض ‘‘۔عمران دونوں ہاتھ بڑھا کر چیخا ۔
’’عمران ۔مائی لیڈ ۔تم شائد کہیں جا رہے ہو ‘‘۔موٹر سائیکل سوار بولا ۔پھر لڑکیوں کی طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔’’اُوہ معاف کیجیے گا لیکن یہ کام ضروری ہے ۔عمران جلدی کرو‘‘۔
عمران اُچھل کر کیر یر پر بیٹھ گیا اور موٹر سائیکل فراٹے بھرتی ہوئی پھاٹک سے گز رگئی۔
’’دیکھا تم نے ‘‘۔ثریا اپنا نچلا ہونٹ چبا کر بو لی۔
’’یہ کون تھا؟‘‘ جمیلہ نے پو چھا ۔
’’محکمہ سر اغرسانی کا سپر نٹنڈنٹ فیاض ۔مگر ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ اُسے بھائی جان جیسے خبطی آدمی سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے۔یہ اکثر انھیں اپنےساتھ لے جا یا کر تا ہے ‘‘۔
’’عمران بھائی دلچسپ آدمی ہیں ‘‘۔جمیلہ نے کہا ۔’’بھئی کم ازکم مجھے تو ان کی موجودگی میں بڑا لطف آتا ہے‘‘۔
’’ایک پاگل دوسرے پاگل کو عقلمندہی سمجھتا ہے‘‘۔ثریا منہ بگاڑ کر بو لی۔
’’مگر مجھے یہ پاگل تو نہیں معلوم ہو تے ‘‘۔ ثریا کی نئی سہیلی نے کہا ۔
اور اُس نے قریب قریب ٹھیک ہی بات کہی تھی ۔عمران صورت سے خبطی نہیں معلوم ہو تا تھا۔خاصا خوشر واور دلکش نو جوان تھا۔عمر ستا ئیس اٹھائیسں کے لگ بھگ رہی ہو گی۔خوش سلیقہ اور صفائی پسند بھی تھا۔تندرستی اچھی اور جسم ورزشی تھا۔