لیڈی جہا نگیر اُسے کھا جا نے وا لی نظروں سے گھو رتی رہی اُس کی سا نس پھول رہی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔عمران نے جو تے پہنے ۔ کھونٹی سے کو ٹ اتا رااورپھر بڑے اطمینان سے سر جہا نگیر کی سنگار میز پر جم گیا اور پھر وہ اپنے بال درست کرتے وقت اسی طرح گنگنا رہا تھا جیسے سچ مچ ا پنے ہی کمرے میں بیٹھا ہو۔ لیڈی جہا نگیر دانت پیس رہی تھی لیکن ساتھ ہی بے بسی کی ساری علا مات بھی اس کے چہرے پر اُمنڈآئی تھیں۔
’’ٹاٹا ‘‘۔عمران دروازے کے قریب پہنچ کر مڑ ااور احمقوں کی طرح مسکراتا ہوا با ہر نکل گیا۔ اُس کا ذہن اس وقت با لکل صاف ہو گیا تھا ۔ پچھلی رات کی معلومات ہی اُس کی تشفی کے لیے کافی تھیں ۔سر جہا نگیر کے لیڑ پیڈ کا پُرا سر ار طور پر مرے ہوئے آدمی کے ہا تھ میں پا یا جا نا اس با ت پر دلا لت کرتا تھا کہ اس معا ملے میں سر جہا نگیر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرورتھا اور شائد سر جہا نگیر شہر ہی میں مو جود تھا ۔ہو سکتا ہے کہ لیڈی جہا نگیر اس سے لا علم رہی ہو۔
اب عمران کو اُس خوشر وآدمی کی فکر تھی جسے اِن دِنوں جج صا حب کی لڑکی کے ساتھ دیکھا جا رہا تھا۔
’’دیکھ لیا جا ئے گا ‘‘۔ وہ آہستہ سے بڑ بڑایا ۔
اُس کا اردہ تو نہیں تھا کہ گھر کی طرف جا ئے مگر جانا ہی پڑا ۔ گھر گئے بغیر مو ٹر سا ئیکل کس طرح ملتی ۔ اسے یہ بھی تو معلوم کر نا تھا کہ وہ خو فناک عما رت دراصل تھی کس کی ۔ اگر اُس کا ما لک گا ؤں والوں کے لیے اجنبی تھا تو ظا ہر ہےکہ اس نےوہ عمارت خود بنوا ئی ہو گی کیو نکہ طرزِ تعمیر بہت پرا نا تھا لہٰذا ایسی صورت میں یہی سوچا جا سکتا تھا کہ اُس نے بھی اُسےکسی سے خرید اہی ہو گا۔
گھر پہنچ کر عمران کی شامت نے اُسے پھر للکار ا۔ بڑی بی شائد پہلے ہی سے بھری بیٹھی تھیں۔ عمران کی صورت د یکھتے ہی آگ بگولہ ہو گئیں۔
’’کہا ں تھا رے…کمینے…سور‘‘۔
’’اُوہو! اماں بی! گڈما رننگ…ڈیر سٹ‘‘۔
’’ما رننگ کے بچے میں پو چھتی ہوں …رات کہاں تھا ‘‘۔
’’وہ اماں بی۔ کیا بتاؤں ۔ وہ حضرت مو لا نا…بلکہ مر شدی و مو لا ئی سیّد نا جگر مراد آبادی ہیں نا…لاحول وقوۃ …مطلب یہ ہےکہ مو لوی تفضّل حسین قبلہ کی خدمت میں رات حاضر ہو اتھا۔اللہ اللہ کیا بزرگ ہیں…‘‘
اور پھر ثریا کو آتے د یکھ کر عمران نے جلد سے جلد وہاں کھسک جا نا چا ہا۔ بڑی بی بڑ بڑائے جا رہی تھیں۔
’’اماں بی ! آپ خواہ مخواہ اپنی طبیعت خرا ب کر رہی ہیں ۔ دماغ میں خشکی بڑھ جا ئے گی۔ ثریا نے آتے ہی کہا۔’’اور یہ…بھا ئی جا ن ۔ ان کو تو خدا کے حوالے کیجیے‘‘۔
عمران کچھ نہ بولا ۔ اما ں بی کو بڑبڑا تے چھوڑ کر تو نہیں جا سکتا تھا۔
’’شرم نہیں آتی ‘باپ کی پگڑی اُچھا لتے پھر رہے ہیں ‘‘۔ ثریا نے امّاں بی کے کسی مصرعے پر گر ہ لگائی ۔
’’ہائیں ‘توکیا ابّا جان نے پگڑی با ندھنی شروع کردی ہے‘‘۔عمران پُر مسرت لہجے میں چیخا ۔
’’اماں بی اختلا ج کی مر یض تھیں اعصاب بھی کمزور تھے لہٰذا اُنھیں غصہ آگیا ایسی حالت میں ہمیشہ اُن کا ہا تھ جو تی کی طرف جا تا تھا ۔عمران زمین پر بیٹھ گیا اور پھر تڑاتڑ کی آواز کے علاوہ اورکچھ نہ سن سکا ۔اماں بی جب اُسے جی بھر کےپیٹ چکیں توانھیں نے رو نا شروع کر دیا ۔ثریا انہیں دوسرے کمرے میں گھسیٹ کر لے گئی ۔عمران کی چچا زاد بہنوں نے اُسے گھر لیا تھا۔ کوئی اس کے کوٹ سے گرد جھاڑ رہی تھی اور کو ئی ٹا ئی کی گرہ درست کر رہی تھی۔ ایک نے سر پر چمپی شروع کردی ۔
عمران نےجیب سے سگر یٹ نکال کر سُلگائی اور اس طرح کھڑا رہاجیسے وہ بالکل تنہا ہو۔دوچار کش لےکر اُس نے اپنے کمرہ کی راہ لی اوراس کی چچا زاد بہنیں زرینہ ، ممتاز اور صوفیہ ایک دوسرے کا منہ ہی دیکھتی رہ گئیں ۔کمرےمیں آکر عمران نے فلٹ ہیٹ ایک طرف اُچھا ل دی ۔ کوٹ مسہری پر پھینکا اور ایک آرام کرسی پر گر کر اُو نگھنے لگا۔
رات والا کا غذ اب بھی اس کے ہاتھ میں دبا ہوا تھا ۔اس پر کچھ ہند سے لکھے ہوئے تھے ۔ کچھ پیمائش تھیں ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی بڑھئی نے کوئی چیز گڑھنے سے پہلے ا س کےمختلف حصوں کے تنا سب کا اندازہ لگایا ہو۔ بظا ہر اس کا غذ کے ٹکڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن اس کا تعلق ایک نا معلوم آدمی کی لا ش سے تھا ۔ ایسا آدمی کی لاش سے جس کا قتل بڑے پرا سرا ر حالا ت میں ہو ا تھا اور اُن حالات میں یہ دوسرا قتل تھا ۔
عمران کو اِس سلسلے میں پو لیس یا محکمئہ سرا غر سا نی کی مغشولیات کا کو ئی علم نہیں تھا۔اس نے فیا ض سےیہ بھی معلوم کرنے کی زحمت گوار ا نہیں کی تھی کہ پو لیس نے اُن حادثوں کے متعلق کیا رائے قائم کی ہے۔
عمران نے کا غذکا ٹکڑا اپنے سوٹ کیس میں ڈال دیا ۔اور دوسرا سوٹ پہن کر دو با رہ با ہر جا نے کےلیے تیار ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی مو ٹر سائیکل اسی قبضے کی طرف جا رہی تھی ۔ جہا ں وہ خوفناک عمارت واقع تھی۔قصبےمیں پہنچ کر اس بات کا پتہ لگانے میں دشواری نہ ہو ئی کہ وہ عمارت پہلے کس کی ملکیت تھی۔ عمران اُس خا ندان کے ایک ذمہ دارآدمی سےملا جس نے یہ عمارت جج صا حب کے دوست کے ہا تھ فروخت کی تھی۔
’’اب سے آٹھ سال پہلے کی بات ہے‘‘۔ اُس نے بتایا ۔’’ایا ز صا حب نےوہ عمارت ہم سے خرید ی تھی۔ اس کے بعد مر نے سے پہلے وہ اس شہر کے کسی جج صاحب کے نام قانو نی طور پر منتقل کر گئے‘‘۔
’’ایاز صا حب کون تھے ‘پہلے کہا ں رہتے تھے ‘‘۔عمران نے سوال کیا۔
’’ہمیں کچھ نہیں معلوم ۔ عمارت خر ید نے کے بعد تین سال تک زندہ رہے لیکن کسی کو کچھ نہ معلوم ہو سکا کہ وہ کون تھے اور پہلے کہا ں رہتے تھے۔اُن کےسا تھ ایک نو کر تھا ۔ جواب بھی عمارت کےسا منے کےایک حصے میں مقیم ہے‘‘۔
’’یعنی قبر کا وہ مجا ور‘‘۔عمران نے کہا اور بو ڑھے آدمی نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ وہ تھوڑی د یر تک کچھ سو چتا رہا پھر بولا ۔’’وہ قبر بھی ایاز صاحب ہی نے دریا فت کی تھی۔ ہمارے خا ندان والوں کو تو اس کا علم نہیں تھا کہ وہا ں پہلے کبھی کو ئی قبر بھی تھی۔ہم نے اپنے بزرگوں سے بھی اِس بار ےمیں نہیں سنا‘‘۔
’’اُوہ ‘‘۔عمران اُسے گھورتا ہوا بولا ۔’’بھلا قبر کس طرح دریا فت کی تھی‘‘۔
’’انھوں نے خواب میں دیکھا تھا کہ اِس جگہ کو ئی شہید مر د دفن ہیں ۔ دوسرے ہی د ن قبر بنا نی شروع کر دی‘‘۔
’’خود ہی بنا نی شروع کر دی ‘‘۔عمران حیرت سے پو چھا۔
’’جی ہاں ۔ وہ اپنا سا را کام خودہی کر تے تھے۔ کا فی دو لت مند بھی تھے لیکن انھیں کنجوس نہیں کہا جا سکتا کیو نکہ دِل کھول کر خیرات کر تے تھے‘‘۔
’’جس کمرے میں لاش ملی تھی اُس کی دیواروں پر پلاسڑ ہے لیکن دو سرے کمروں میں نہیں ۔ اِس کی کیا و جہ ہے‘‘۔
’’پلاسڑ بھی ایاز صا حب ہی نے کیا تھا‘‘۔
’’خودہی‘‘۔
’’جی ہاں‘‘۔
’’اس پر یہا ں قصبے میں تو بڑی چہ میگو ئیاں ہو ئی ہوں گی‘‘۔
’’قطعی نہیں جناب ۔اب بھی یہاں لو گوں کایہی خیال ہےکہ ایا ز صا حب کو ئی پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور میرا خیال ہے کہ اُن کا نوکر بھی بز رگی سے خا لی نہیں ‘‘۔
’’کبھی ایسے لوگ بھی ایاز صا حب سے ملنے کےلیے آتے تھے جو یہاں والوں کےلئے اجنبی رہے ہوں‘‘۔
’’جی نہیں ۔ مجھےتو یاد نہیں ۔میراخیال ہےکہ اُن سے کبھی کو ئی ملنے کےلیے نہیں آیا‘‘۔
’’اچھا بہت بہت شکریہ ‘‘۔عمران بو ڑھے سے مصا فحہ کرکے اپنی مو ٹر سا ئیکل کی طرف بڑھ گیا ۔
اب وہ اسی عمارت کی طرف جا رہا تھا اور اس کے ذہن میں بیک وقت کئی سوال تھے ۔ا یاز نے وہ قبر خود ہی بنا ئی تھی اور کمرے میں پلا سڑ بھی خود ہی کیا تھا۔کیا وہ ایک ا چھا معمار بھی تھا ؟ قبر وہاں پہلے نہیں تھی۔ وہ ایاز ہی کی در یا فت تھی اور اس کا نو کر آج بھی قبر سے چمٹا ہو ا ہے۔ آخر کیوں ؟اسی کمرے میں پلاسڑ کر نے کی کیا ضرورت تھی؟
عمران عمارت کے قریب پہنچ گیا ۔ بیرونی بیٹھک جس میں قبر کا مجاور رہتا تھا کھلی ہو ئی تھی اور خود بھی مو جو د تھا۔ عمران نےاس پر ایک اُچٹتی سی نظر ڈالی۔ یہ متو سط عمر کا ایک قوی ہیکل آدمی تھا ۔ چہرے پر گھنی دا ڑھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔شا ئد وہ ہمیشہ ا یسی ہی رہتی تھیں۔
عمران نے دو تین بار جلد ی جلدی پلکیں جھپکائیں اور پھر اُس کے چہرے پراُسی پرانے احمق پن کے سارے آثار اُبھرآئے۔
’’کیا با ت ہے‘‘۔اُسے دیکھتے ہی نو کر نے للکارا۔
’’مجھے آپ کی دعا سے نو کری مل گئی ہے‘‘۔ عمران سعادت مندانہ لہجہ میں بولا۔‘‘سوچا کچھ آپ کی خدمت کر تا چلوں ‘‘۔
’’بھاگ جاؤ ‘‘۔قبر کا مجا ور سُرخ سُرخ آنکھیں نکا لنے لگا ۔
’’اب اتنا نہ تڑپا یئے ‘‘۔عمران ہاتھ جوڑکر بولا ۔’’بس آخری درخواست کروں گا‘‘۔
’’کون ہو تم ؟ کیا چا ہتے ہو ؟‘‘ مجاور یک بیک نرم پڑگیا۔
’’لڑکا !بس ایک لڑکا ۔ بغیر بچے کے گھر سونا ہے۔یا حضرت ! تیس سال سے بچے کی آرزو ہے‘‘۔