عمران بوتھ سے نکل آیا۔ اس کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ تھی اور داڑھی میں یہ مسکراہٹ نہ جانے کیوں خطر ناک معلوم ہورہی تھی۔ آدھے گھنٹے تک اُسے انتظار کرنا تھا ۔ وہ ٹہلتا ہو اسڑک کی دوسری طرف چلا گیا۔ اُدھر چند سایہ دار درخت تھے ۔ روشی کا انتظام اُس نے پچھلی بھی رات کو کر لیا تھا۔ وہ اُس وقت ایک غیر معروف سے ہوٹل کے ایک کمرے میں مقیم تھی اور عمران نے پچھلی رات اُسی کے فلیٹ میں تنہا گزاری تھی۔
وہ درختوں کے نیچے ٹہلتا رہا۔ بار بار اس کی نظر کلائی کی گھٹری کی طرف اُٹھ جاتی تھی۔ میں منٹ گزر گئے۔ اب وہ پھر بوتھ کی طرف جارہا تھا۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے محسوس کیا کہ ایک کار قریب ہی اُس کی پشت پر آرُ کی ہے۔ اچانک عمران پر کھانسیوں کا دورہ پڑا وہ پیٹ دبائے ہوئے جھک کر کھانسنے لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہو کر بوتھ کی طرف مکالہراتا ہو غصیلی آواز میں بولا۔ ” سالی کبھی تو باہر نکلو گی”۔
” کیا بات ہے جناب ؟‘‘ کسی نے پشت سے کہا۔
عمران چونک کر مڑا ۔ اس سے تین چارفٹ کے فاصلے پر ایک وجہیہ جو ان کھڑا تھا اور سڑک پر ایک خالی کار موجود تھی۔
’’ کبا بتاؤں جناب‘‘ عمران اس طرح بولا جیسے کھانسیوں کے دورے کے نتیجے میں اُس کی سانسیں اُلجھ رہی ہوں وہ چند لمحے ہانپتا رہا۔ پھر بولا ایک گھنٹے سے اندر گھسی ہوئی ہے۔ مجھے بھی ایک ضروری فون کرنا ہے۔ کئی بار دستک دے چکا ہوں ، ہر بار یہی کہہ دیتی ہے، ایک منٹ ٹھہریئے ، ایک منٹ کی ایسی تیسی ایک گھنٹہ ہو گیا‘‘’’ میں دیکھتا ہوں‘‘ نو وارد آگے بڑھتا ہوا بولا اُس نے ہینڈل گھما کر درواز کھولا لیکن پھر اُسے مڑنا نصیب نہیں ہوا عمران کا ہاتھ اُس کی گردن دبوچ چکا تھا۔ اُس نے اُسے بوتھ کے اندر دھکا دے دیا اور خود بھی طوفان کی طرح اس پر جاپڑا۔
بوتھ کا دروازہ خود کار تھا اس لئے اُسے بند کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی وہ دونوں کے داخل ہوتے ہی خود بخود بند ہو گیا تھا۔ تھپڑ وں گھونسوں اور اتوں کا طوفان۔ ہاتھوں کے ساتھ ہی ساتھ عمران کی زبان بھی چل رہی تھی۔
’’ میں روشی، تمہاری ٹھکائی کر رہا ہوں، میری جان اپنے بلڈانگ سے کہہ دینا کہ میرے بقیہ نوٹ مجھے واپس کر دے، ور نہ ایک دن اُسے بھی کسی چوہے دان میں بند کر کے ماروں گا اور دو سالی روشی ، وہ بھی مجھے جل دے گئی کل رات سے غائب ہے اور بیٹا ،کل رات سے میں نے تمہارے ایک ساتھی کی کمر توڑ دی ہے۔”
عمران اُس پر اچانک اس طرح ٹوٹ پڑا تھا کہ اسے کچھ سوچنےسمجھنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ پھر ایسی صورت میں چپ چاپ پیٹے رہنے کے علاوہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ تھوڑی دیر میں اس نے ہاتھ پیر ڈال دیئے عمران نے اُسے کالر سے پکڑ کر اُٹھا لیا لیکن اُس کے پیر زمین پر نکتے ہی نہیں تھے ‘‘دیکھو بیٹا… اپنے بُلڈاگ سے کہہ دینا کہ آج رات کو میرے بقیہ نوٹ واپس مل جانے چاہئیں۔ وہ جعلی ہیں، میں ابھی انہیں بازار میں نہیں لانا چاہتا تھا… مگر اس کتے کی وجہ سے میرا کھیل جڑ گیا۔ آخر وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے والا ہوتا کون ہے۔ اُس سے کہو آج رات مجھے نوٹ واپس ملنے چاہئیں۔ میں روشی ہی کے فلیٹ میں ہوں دو مجھ سے خائف ہو کر کہیں چھپ گئی ہے۔ آج رات کو… میں روشی کے فلیٹ ہی میں ملوں گا اور یہ بھی کہہ دینا اس چڑی مار سے کہ اے۔ بی ۔ سی ہوٹل میں ایک پولیس افسر مچھلیوں کے شکار کے بہانے ٹھہر ا ہوا ہے۔ ہوشیار رہنا‘‘ ۔
پھر اُس نے اُسے کھینچ کر بوتھ سے باہر نکالا۔ سڑک ویران پڑی تھی۔ نو دارد اگر چاہتا تو کھلی جگہ میں اس سے اچھی طرح نمٹ سکتا تھا … مگر حقیقت تو یہ تھی کہ اب اس میں جدو جہد کی سکت ہی نہیں رہ گئی تھی۔ عمران نے اسے اسٹیئرنگ کے سامنے بیٹھا دیا ۔”جاؤ اب دفع ہو جاؤ”۔ عمران نے کہا ” ور نہ ہو سکتا ہے کہ مجھے پھر تم پر پیار آنے لگے۔ اپنے بلڈاگ تک میرا پیغام ضرور پہنچا دینا نہیں تو پھر جانتے ہو مجھے ۔ جہاں بھی اندھیرے اُجالے مل گئے تمہارا آملیٹ بنا کر رکھ دوں گا۔”