مستقبل میں ذیابیطس کی اقسام – تحریر نمبر 3675
ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے جس میں مبتلا افراد کے خون میں گلوکوز کی سطح معمول سے زیادہ ہوتی ہے۔ یہ حالت دل کی بیماریوں اور دیگر پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھاتی ہے۔
ایک زمانے میں، ایک وید نے ذیابیطس کی تشخیص اور اس کی قسم بندی ذیابیطس ٹائپ 1 اور ٹائپ 2 میں کی، لیکن بعد میں انیسویں صدی میں یہ تقسیم رد کر دی گئی۔ نئی کلاسیفیکیشن میں ذیابیطس کو انسولین پر انحصار کرنے والی (Insulin Dependent Diabetes Mellitus-IDDM) اور انسولین پر انحصار نہ کرنے والی (NIDDM) میں تقسیم کیا گیا۔
IDDM میں مریضوں کو ہمیشہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے جبکہ NIDDM کے مریض زیادہ تر ذیابیطس کی گولیاں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن کچھ مریضوں میں یہ گولیاں وقت کے ساتھ بے اثر ہو گئیں، جس کے نتیجے میں انہیں انسولین کی ضرورت پڑی، حالانکہ انہیں غیر انسولین پر انحصار کرنے والے کہا گیا تھا۔ اس وجہ سے، ماہرین نے مستقبل میں ذیابیطس کی مزید اقسام کی تحقیق کی۔
حالیہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ ذیابیطس ایک پیچیدہ مرض ہے جسے محض دو قسموں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بڑی تحقیق جس میں 15,000 مریض شامل تھے نے ظاہر کیا کہ ذیابیطس کی پانچ اقسام ہونی چاہیئے، جن میں سے ہر ایک کی شناخت مختلف عوامل جیسے عمر، BMI، میٹابولک کنٹرول، بیٹا سیل اینٹی باڈیز، اور انسولین مزاحمت سے کی جا سکتی ہے۔
یہ تحقیق نہ صرف ذیابیطس کے بنیادی عوامل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ذیابیطس کی پیچیدگیوں کا بہتر اور زیادہ انفرادی علاج بھی ممکن بنائے گی۔ اس سے مریضوں کو ان کی حالت کے مطابق زیادہ موثر علاج فراہم کیا جا سکے گا، جس سے بیماری کی پیچیدگیوں کو مؤخر کرنے میں مدد ملے گی-
ذیابیطس کی مختلف اقسام کا تعارف
شدید آٹو امیون ذیابیطس (SAID – Severe Autoimmune Diabetes): یہ ذیابیطس کی پہلی قسم ہے، جو کہ عام طور پر ذیابیطس ٹائپ ون کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس حالت میں، مریض کا امیون سسٹم غلطی سے لبلبے کے بیٹا خلیات کو تباہ کر دیتا ہے، جو انسولین کی پیدائش کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مریضوں کو اپنی شوگر کی سطح کو باقاعدگی سے چیک کرنا پڑتا ہے اور دن میں دو یا تین بار انسولین کے انجیکشن لگانے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ انسولین اس قسم کی ذیابیطس کا واحد مؤثر علاج ہے۔
شدید انسولین کی کمی والی ذیابیطس (SIDD – Severe Insulin-Deficient Diabetes): یہ قسم ذیابیطس ٹائپ ون کی طرح ہوتی ہے جہاں مریضوں کے جسم میں انسولین کی کمی ہوتی ہے، لیکن یہ آٹوایمیون ردعمل سے مختلف ہوتی ہے کیونکہ اس میں بیٹا خلیات کے خلاف اینٹی باڈیز کا پتا نہیں چلتا۔ ان مریضوں کو بھی انسولین کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن ابتدائی مراحل میں زبانی دواؤں (oral medications) سے بھی کنٹرول ممکن ہو سکتا ہے۔
شدید انسولین مزاحمت والی ذیابیطس (SIRD – Severe Insulin Resistant Diabetes): یہ قسم انسولین مزاحمت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، جس میں مریض کا جسم لبلبے سے افراز شدہ انسولین کا مناسب جواب نہیں دیتا۔ اکثر یہ مریض زائد وزنی ہوتے ہیں اور ان میں گردے کی بیماریوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ان مریضوں کے لیے موثر علاج کی ضرورت ہوتی ہے، جو نئی تحقیقات سے سامنے آ سکتا ہے۔
یہ اقسام ذیابیطس کے بہتر فہم اور موثر علاج کے لئے ضروری ہیں۔ مختلف قسم کی ذیابیطس کی صحیح شناخت سے علاج میں بہتری آ سکتی ہے اور مریضوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے مدد مل سکتی ہے۔
درمیانے موٹاپے والی ذیابیطس (MOD – Mild Obesity-Related Diabetes)
یہ ذیابیطس کی ایک درمیانی قسم ہے جو کہ عام طور پر درمیانی موٹاپے سے متعلق ہوتی ہے۔ اس قسم کے متاثرین کا وزن زیادہ ہوتا ہے لیکن ان کی انسولین مزاحمت نسبتاً کم ہوتی ہے، خاص طور پر جب اسے ذیابیطس کی تیسری قسم، SIRD (Severe Insulin Resistant Diabetes) سے موازنہ کیا جائے۔ اس قسم کی ذیابیطس عموماً موٹاپے کے براہ راست نتیجے کے طور پر سامنے آتی ہے۔
درمیانی عمر سے تعلق رکھنے والی ذیابیطس (MARD – Mild Age-Related Diabetes)
یہ قسم بالخصوص ادھیڑ عمر یا درمیانی عمر کے افراد میں دیکھی جاتی ہے۔ اس میں مبتلا افراد عمر رسیدہ ہوتے ہیں، اور یہ ذیابیطس عمر کے ساتھ آنے والے جسمانی تبدیلیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔
یہ نئی ذیابیطس کی اقسام دیگر روایتی اقسام کے مقابلے میں مختلف علاج کی موجب بنتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو عموماً ابتدا میں دوائیں دی جاتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر انسولین کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو ہمیشہ انسولین کی ضرورت پڑتی ہے۔
اس نئی قسم کی شناخت سے ذیابیطس کا علاج زیادہ مؤثر اور مریض کی ضروریات کے مطابق بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف ذیابیطس کو زیادہ بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے بلکہ طویل مدت میں ذیابیطس کی پیچیدگیوں کو مؤخر کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ اس طرح کی پیشرفت سے ذیابیطس کے علاج میں نئی جہتیں شامل ہوتی ہیں اور مریضوں کو ان کی مخصوص حالت کے مطابق زیادہ بہتر علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔
مضمون: ہومیوپیتھ شکیل مظفر