معتبر، محفوظ تر، اکیڈمی
سب سے رستہ بتاتا ہوں۔
جانے کتنے قافلوں میں بنٹ گیا اک قافلہ
ایک منزل، ایک رستہ، اک سفر کرتے ہوئے
آ جیسے میں بھی کوئی ناقۂ صحراء ہوں جو
پیاس سے مر جائے پانی پیٹھ پر ہوتے ہوئے
چھوٹ کر بھی کیا اثر تھا حلقۂ صیاد کا
اڑی نہیں سمجھے پرندے بال و پرچے ہوئے ہیں۔
عرش کےمالک ہوئےجو کل تلک تھے۔
خاک میں سب عظمتیں زیر و زبر ہوتے ہوئے
آسرا ان کی محبت کا ہمیں جن کے پاس
گنبد بے در میں دیکھے ہم نے دربہ کیا۔
چھوڑ کر اس کو درکو بزمی کیوں کر جائیں گے ہم
کیوں کسی کے در پہ جائیں انکا درخوار
کلام :فراز بزمی (سوائی مادھوپور راجستھان، بھارت)