بوڑھی کاکی (افسانہ) – از منشی پریم چند

مندرجہ ذیل منشی پریم چند کا افسانہ  ’’بوڑھی کاکی‘‘ مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ  کی جماعت ہفتم کے اردو زبان  کے نصاب میں شامل ہے۔

بُڑھا پا اکثر بچپن کا دورثانی ہوا کرتاتھا ۔بوڑھی کاکی میں ذایٔقے کے سِوا کویٔ حس باقی نہ تھی۔ آنکھیں ،ہاتھ،پیرسب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کویٔ بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے ،کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کویٔ چیز آتی اور انھیں نہ ملتی تو رونے لگتی تھیں۔ان کے شوہر کو مرے ہوۓ ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ سات بیٹھےجوان ہوہوکر داغ دے گۓ تھے اور اب ایک بھتیجے کے سوا دنیا میں ان کا کویٔ نہ تھا۔اسی بھتیجے کے نام انھوں نے ساری جائداد لکھ دی تھی۔ان حضرات نے لکھاتے وقت تو خوب لمبے چوڑے وعدے کیے تھے لیکن وہ وعدے دلالوں کے سبز باغ تھے۔اگر چا اس جائداد کی سالانہ آمدنی ڈیڑھ دوسوروپے سے کم نہ تھی لیکن بوڑھی کاکی کو پیٹ بھر روکھا دانہ بھی مشکل سے ملتا تھا۔

            بدھ رام کو بھی کبھی کبھی اپنی بے انصافی کا احساس ہوتا۔وہ سوچتے کہ اس جائداد کی بدولت میں اس وقت بھلا ادمی بنا بیٹھا ہوںاور اگر زبانی تشفّی سے ضورتِ حال میں کچھ اصلاح ہو سکتی تو انھیں مطلق دریغ نہ ہوتا لیکن مزید خرچ کا خوف ان کی نیکی کو دباۓ رکھتا تھا۔ اس کے برعکس اگر دروازے پر کویٔ بھلا مانس بیٹھا ہوتا اور بورھی کاکی اپنا نغمۂ بے ہنگام شروع کر دیتیں تو وہ آگ ہو جاتے تھے اور گھر میں آکر انھیں ڈانٹتے تھے۔ لڑکے والد کا یہ رنگ دیکھ کر بوڑھی کاکی کو اور بھی دق کرتے۔

            سارے گھر میں اگر کسی کو کاکی سے محبت تھی وہ بدھ رام کی چھوٹی لڑکی لاڈلی تھی۔لاڈلی اپنے دونوں بھائیوں کے خوف سےاپنے حصّے کی مٹھایٔ یا چبینا بوڑھی کاکی کے پاس بیٹھ کر کھایا کرتی تھی۔

            رات کا وقت تھا۔بدھ رام کے دروازے پر شہنایٔ بج رہی تھی ۔آج بدھ رام بڑےلڑکے سکھ رام کا تلک آیا ہے۔یہ اسی کا جشن ہے۔گھر میں مستورات گا رہی تھیں اور روپا مہمانوں کی دعوت کا سامان کرنے میں مصروف تھی۔بھٹیوں پر کڑھاؤچڑھے ہوۓ تھے۔ ایک میں پوریاں کچوریاں نکل رہی تھیں،دوسرے میں سموسے۔ایک بڑے ہنڈے میں مسالے دار ترکاری پک رہی تھی۔گھی اور مسالے کی اشتہا انگیز خوشبو چاروں طرف پھلی ہی تھی۔

            بوڑھی کاکی اپنی اندھیری کوٹھری میں بیٹھی ہویٔ تھیں۔ یہ لذّت آمیز خوشبو انھیں بے تاب کر رہی تھی۔ان کی چشمِ خیال میں پوریوں کی تصویر ناچنے لگی۔خوب لال لال پھولی پھولی نرم نرم ہوگی۔ایک پوری ملتی تو ذرا ہاتھ میں لے کر دیکھتی۔کیوں نہ چل کر کڑھاؤ کے سامنے ہی بیٹھوں۔

            اس طرح فیصلہ کرکے بوڑھی کاکی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھسکتی ہویٔ بمشکل تمام چوکھت سے اتریں اور دھیرے دھیرے رہنگتی ہویٔ کڑھاؤ کے پاس جا بیٹھیں۔روپا اس وقت ایک سراسیمگی کی حالت میں تھی۔کبھی اِس کمرے میں جاتی ،کبھی اس کمرے میں۔کبھی کڑھاؤ کے پاس ،کبھی کوٹھے پر۔بیچاری اکیلی عورت چاروں طرف دوڑتے دوڑتے حیران ہو رہی تھی۔جھنجھلاتی تھی،کڑھتی تھی پر غصّہ باہر نکلنے کا موقع نہ پاتا تھا۔اسی کشمکش کے عالم میں اس نے بوڑھی کاکی کو کڑھاؤ کے پاس بیٹھتے دیکھا تو جل گی۔غصّہ نہ رُک سکا۔جیسے مینڈک کیچوے پر جھپٹتا ہے، اسی طرح وہ بوڑھی کاکی پر جھپٹی اور انھیں دونوں ہاتھوں سے جھنجھوڑ کر بولی،”ایسے پیٹ میں آگ لگے۔ پیٹ ہے کہ آگ کا کُنڈ۔ کوٹھری میں بیٹھتے کیا دَم گھُٹتا تھا۔ابھی مہمانوں نے نہیں کھایا۔ دیوتاؤں کا بھوگ تک نہیں لگا۔ تب تک صبر نہ ہو سکا۔آکر چھاتی پر سوار ہو گیٔں۔ بھلا چاہتی ہو تو جاکر کوٹھری میں بیٹھو ۔ جب گھر کے لوگ لگیں گے تو تمھیں بھی مے گا۔ تم کویٔ دیوی نہیں ہو کہ چاہے کسی کے منہ میں پانی تک نہ جاۓ لیکن پہلے تمھاریپوجا کرے۔”

            بوڑھی کاکی نے سر نہ بولیں؛چپ چاپ رینگتی ہویٔ وہاں سے اپنے کمرے میں چلی گیٔں۔صدمہ ایسا سخت تھا کہ دِل و دماغ کی ساری قوّتیں اس طرف رجوں ہوگئ تھیں۔

            کھانا تیار ہو گیا۔آنگن میں پتّل پڑگۓ۔مہمان کھانے لگے۔ بوڑھی کاکی اپنی کوٹھری میں جا کر پچھتا رہی تھیں کہ کیاں سے کہاں گیٔ۔انھیں روپا پر غصّہ نہیں تھا۔اپنی عُجلت پر افسوس تھا۔سچ تو ہے،جب تک مہمان کھانہ چکیں گے ،گھر والے کیسے کھائیں گے۔مجھ سے اتنی دیر بھی نہ رہا گیا۔اب جب تک کویٔ بُلانے نہ آۓگا،نہ جاؤں گی۔

            دِل میں یہ فیصلہ کرکے وہ خموشی سے بُلاوے کا انتظار کرنے لگیں۔ انھیں ایک ایک گھنٹا معلوم ہوتا تھا ۔اب پتل بچھ گۓہوں گے۔معلوم ہوتاہے لوگ کھانے پر بیٹھ گۓ۔پھر انھیں لگا کہ بہت دیرہوگیٔ ہے۔کیا اتنی دیر تک لوگ کھا ہی رہے ہوں گے۔کسی کی بول چال سنایٔ نہیں دیتی۔ضرور لوگ کھاپی کے چلے گۓ۔مجھے کویٔ بُلانے نہیں آیا۔روپا چڑ گیٔ ہے،کیا جانے کہ نہ بُلاۓ۔سوچتی ہوکہ آپ ہی آئیں گی۔کویٔ مہمان نہیں کہ بُلا کر لاؤں۔

            بوڑھی کاکی چلنے کے لیے تیار ہوئیں۔انھوں نے دل میں طرح طرح کے منصوبے باندھے،’’پہلے ترکاری سے پوریاں کھاؤں گی،پھر دہی اور شکر سے۔کچوریاں رائتے کے ساتھ مزیدار معلوم ہوں گی۔چاہے کویٔ بُرامانےیا بھلا،میں تو مانگ مانگ کر کھاؤں گی۔‘‘

            بوڑھی کاکی اکڑوں بیٹھ کر ہاتھوں کے بل کھِسکتی ہویٔ آنگن میں آئیں ۔مہمانوں کی جماعت ابھی بیٹھی ہویٔ تھی۔وہ رینگتی ہویٔ ان کے بیچ میں جا پہنچیں۔کیٔ آدمی چونک کر اُٹھ کھڑے ہوۓ،آوازیں آئیں،’’ارے،یہ کون بڑھیا ہے؟‘‘

            پنڈت بدھ رام کاکی کو دیکھتے ہی غصّے سے تلملاگۓ۔پوریوں کا تھال لیے کھڑے تھے۔تھال کو زمین پر پٹک دیااور جس طرح بے رحم سا ہوکاراپنے کسی مفرور اسامی کو دیکھتے ہی جھپٹ کر اس کا ٹیٹوالیتا ہے،اسی طرح لپک کر انھوں نے بوڑھی کاکی کے دونوں شانے پکڑے اور گھسیٹتے ہوۓ لاکر اندھیری کوٹھری میں دھم سے گرادیا۔

            مہمانوں نے کھانا کھایا۔گھروالوں نے کھایا۔باجے والے،دھوبی چمار بھی کھاچکے لیکن بوڑھی کاکی کو کسی نے نہ پوچھا۔بدھ رام اور روپا دونوں ہی انھیں ان کی بے حیایٔ کی سزادینے کا تصفیہ کر چکے تھے۔ان کے بڑھاپے پر،بے کسی پر،فتورِعقل پر کسی کو ترس نہیں آتا تھا۔اکیلی لاڈلی ان کے لیے کڑھ رہی تھی۔

            دونوں بار جب اس کی ماں اور باپ نے کاکی کو بے رحمی سے گھسیٹا تو لاڈلی کا کلیجا بیٹھ کر رہ گیا۔وہ جھنجھلارہی تھی کہ یہ لوگ کاکی کو کیوں بہت سی پوریاں نہیں دے دیتے۔وہ کاکی کے پاس جاکر انھیں تشفّی دینا چاہتی تھی لیکن ماں کے خوف سے نہ جاتی تھی۔اس نے اپنے حصّے کی پوریاں نہ کھایٔ تھیں۔وہ یہ پوریاں کاکی کے پاس لے جانا چاہتی تھی۔بوڑھی کاکی میری آواز سنتے ہی اُٹھ بیٹھیں گی۔پوریاں دیکھ کر کیسی خوش ہوگی۔مجھے خوب پیار کریں گی۔

            رات کے گیارہ بج چکے تھے۔روپا آنگن میں پڑی سورہی تھی۔لاڈلی کے آنکھوں میں نیند نہ تھی۔کاکی کو پوریاں کھلانے کی خوشی اسے سونے نہ دیتی تھی۔جب اسے یقین ہو گیا کہ اماّں غافل سو رہی ہیں تووہ چپکے سے اُٹھی ،پٹاری اٹھایٔاور بوڑھی کاکی کی کوٹھری کے طرف چلی۔

            بوڑھی کاکی کو محض اتنا یاد تھا کہ کسی نے میرے شانے پکڑے،پھر انھیں ایسا معلوم ہوا جیسے کویٔ پہاڑ پر اُڑاۓ لیے جاتا ہے۔ان کے پیر بار بار پتھروں سے ٹکراۓ۔تب کسی نے انھیں پہاڑپر سے پٹک دیا۔وہ بےہوش ہوگیٔں۔

            یکایک ان کے کان میں آواز آیٔ’’کاکیاُٹھو،میں پوریاں لایٔ ہوں۔‘‘

            کاکی نے لاڈلی کی آواز پہچانی۔چٹ پٹ اٹھ بیٹھیں۔دونوں ہاتھوں سے لاڈلی کو ٹٹولا اور اسے گود میں بٹھالیا۔لاڈلی نے پوریاں نکال کر دیں۔کاکی نے پوچھا،’’کیا تمھاری اماّں نے دی ہیں؟‘‘

            لاڈلی نے فخر سے کہا،’’نہیں،یہ میرے حصّے کی ہیں۔‘‘

کاکی پوریاں پر ٹوٹ پڑیں۔پانچ منٹ میں پٹاری خالی ہو گیٔ۔لاڈلی نے پوچھا،’’کاکی پیٹ بھر گیا؟‘‘

            جیسے تھوڑی سی بارش ٹھنڈک کی جگہ اور بھی جس پیدا کر دیتی ہے،اسی طرح ان چند پورپوں نے کاکی کی اشتہا اور غبت کو اور بھی تیز کر دیاتھا۔بولیں،’’نہیں،بیٹی جا کے اماّں سے اور مانگ لاؤ۔‘‘

            لاڈلی نے کہا،’’اماںسوتی ہیں۔جگاؤں گی تو ماریں گی۔‘‘

            کاکی نے پٹاری کو پھر ٹٹولا۔اس میں چند ریزے گرے تھے۔انھیں نکال کر کھا گیٔں ۔باربارہونٹ چاٹتی تھیں۔چٹخارے بھرتی تھیں۔یکایک لاڈلی سے بولیں،’’میرا ہاتھ پکڑکر وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔‘‘

            لاڈلی ان کا منشانہ سمجھ سکی۔اس نے کاکی کا ہاتھ پکڑا اور انھیں لا کر جھوٹے پتّلوں کے پاس بٹھادیا اور غریب بھوک کے ماری بڑھیا پتّلوں سے پوریوں کے ٹکڑے چن چن کر کھانے لگی۔دہی کتنا لذیذ تھا۔سالن کتنا مزیدار،کچوریاں کتنی سلونی،سموسے کتنے خستہ اور نرم!

            عیں اسی وقت روپا کی آنکھ کھُلی۔اسے معلوم ہوا کہ لاڈلی پاس نہیں ہے۔چونکی،چار پایٔ کے اِدھر اُدھر تاکنے لگی کہ کہیں لڑکی نیچے تو نہیں گر پڑی۔اسے وہاں نہ پاکر وہ اُٹھ بیٹھی تو کیا دیکھتی ہے کہ لاڈلی جھوٹے پتّلوں کے پاس چپ چاپ کھڑی ہے اور بوڑھی کاکی پتّلوں پر سے پوریوں کے ٹکڑےاُٹھااُٹھا کر کھا رہی ہیں۔روپا کا کلیجا سَن سے ہوگیا۔یہ وہ نظارا تھاجس سے دیکھنے والوں کے دل کانپ اُٹھتے ہیں۔درد اور خوف سے اس کی آنکھیں بھرآئیں ۔اس کو اپنی خود غرضی اور بے انصافی آج تک کبھی اتنی صفایٔ سے نظر نہ آیٔ تھی۔ہاۓ میں کتنی بے رحم ہوں! جس کی جائداد سے مجھے دو سو روپے سال کی آمدنی ہو رہی ہے ،اس کی یہ درگت اور میرے کارن۔اے ایشور!مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے۔مجھے معاف کردو۔

            روپا نے چراغ جلایا ۔اپنے بھنڈارے کا دروازہ کھولا اور ایک تھالی میں کھانے کی سب چیزیں لیے ہوۓ بوڑھی کاکی کی طرف چلی۔

            ’’کاکی اُٹھو ،کھانا کھالو۔‘‘روپا نے رِقّت آمیز لہجے میں کہا،’’مجھ سے آج بڑی بھول ہویٔ۔اس کا بُرا نہ ماننا۔پرماتما سے دعا کرو کہ وہ میری خطا معاف کردے۔‘‘

            بھولے بھالے بچّے کی طرح جو مٹھائیاں پا کر مار اور گھُڑکیاں سب بھول جاتا ہے،بوڑھی کاکی بیٹھی ہویٔ کھانا کھارہی تھیں۔ان کے ایک ایک روئیں سے سچی دعائیں نکال رہی تھیں اور روپا بیٹھی یہ روحانی نظارہ دیکھ رہی تھی۔

سوال نمبر 1: اس افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیے۔

تعارفِ سبق

سبق ”بوڑھی کاکی“ کے مصنف کا نام ”منشی پریم چند“ ہے۔ یہ سبق کتاب ” پریم چند کے منتخب افسانے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ آپ ضلع بنارس کے ایک گاؤں میں ۱۸۸۰ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد منشی عجائب لال ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند نے ایک مولوی صاحب سے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی، جبکہ انگریزی تعلیم بنارس میں حاصل کی۔ تعلیم سے فارغ ہوکر منشی پریم چند ایک پرائمری اسکول میں استاد ہو گئے۔ 1908ء میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہوگئے۔

پریم چند کی ادبی زندگی کا آغاز 1901ء سے ہوا۔ آپ نے منشی دیا نرائن نگم کے رسالے ”زمانہ“ میں مضامین لکھے۔ پھر افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی طرف توجہ دی۔ پریم چند نے غریبوں کے حالات و واقعات کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا موضوع بنایا۔ ان کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ”بازارِ حسن، نرملا، میدانِ عمل، پریم بتیسی، پریم پچیسی، پریم چالیسی اور سوزِ وطن“ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ انہوں نے کُل ۲۹ ناول لکھے ہیں۔ آپ کا انتقال ۱۹۳۶ء میں ہوا۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف ایک بوڑھی کاکی کا ذکر کرتے ہیں جس کے شوہر کا انتقال ہوا زمانہ گزر چکا ہوتا ہے اور اس کے سات بیٹے بھی جوان ہو کر داغ دے جاتے ہیں۔ اب اس کاکی کا اس دنیا میں سوائے اپنے بھتیجے بدھ رام کے اور کوئی نہیں ہوتا اس لیے وہ اپنی جائیداد بدھ رام کے نام کردیتی ہے۔ بدھ رام جائیداد اپنے نام کرواتے ہوئے تو بوڑھی کاکی سے بہت سے وعدے کرتا ہے لیکن وہ وعدے فقط سبز باغ نکلتے ہیں اور بوڑھی کاکی پیٹ بھر کھانے سے بھی اب محروم ہوجاتی ہے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ اس گھر میں کاکی سے محبت فقط بدھ رام کی بیٹی لاڈلی کو ہوتی ہے۔ ایک روز بدھ رام کے بیٹے کے تلک کا جشن اس کے گھر منایا جارہا ہوتا ہے، کاکی پوریوں کی خوشبو سونگھ کر بےتاب ہوجاتی ہے اور گرم کڑاہ کے پاس بیٹھ جاتی ہے۔ یہ دیکھتے ہی بدھ رام کی بیوی روپا بوڑھی کاکی پر چھپٹ پڑتی ہے اور اسے خوب باتیں سناتی ہے۔

لاڈلی اس دن اپنی پوریاں بچا لیتی ہے اور رات میں بوڑھی کاکی کے پاس وہ پوریاں لے جاتی ہے۔ جب لاڈلی کے حصے کی پوری کاکی کھالیتی ہے، لاڈلی سے کہتی ہے کہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے وہاں لے چلو جہاں مہمانوں نے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ عین اس وقت روپا کی آنکھ کھلتی ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ لاڈلی اس کے پاس نہیں ہے۔ وہ دیکھتی ہے کہ سامنے کاکی مہمانوں کا چھوڑا ہوا کھانا کھا رہی ہے، تب اسے اپنی خود غرضی کا احساس ہوتا ہے اور وہ سوچنے لگتی ہے جس کی جائیداد سے مجھے سو دوسو روپے سال کے اندر آمدنی ہوتی ہے، اس کی یہ درگت، اور میرے کارن!مجھ سے بڑا بھاری گناہ ہوا ہے۔

روپا بوڑھی کاکی کو کھانے کا تھال دے کر کہتی ہے :
”کاکی اٹھو! کھانا کھا لو۔ مجھ سے آج بڑی بھول ہوئی۔ اس کا برا نہ ماننا، پرماتما سے دعا کرو کہ میری خطا معاف کر دے۔“

سوال نمبر 2 : اس افسانے کی فکری اور فنی خوبیاں بیان کیجیے۔

اس افسانے کی فکری خوبی یہ ہے کہ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ اگر نیکی اور بدی ایک ساتھ موجود ہوں تو بدی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی اور اس افسانے کی فنی خوبی یہ ہے کہ افسانہ انتہائی مضبوط پلاٹ پر لکھا گیا ہے جہاں کسی قسم کا کوئی جھول نظر نہیں آتا ہے۔

سوال نمبر 3 : درج ذیل الفاظ اور محاورات اپنے جملوں میں استعمال کیجیے :

محاورات جملے
جمِ غفیر : اتوار کے دن بازاروں میں لوگوں کا جمِ غفیر نظر آتا ہے۔
اشتہا اشتہا کے خاطر ہمیں غلط کام نہیں کرنے چاہیے۔
ناک کٹوانا اگر ہم برے کام کریں گے تو ہماری وجہ سے ہمارے والدین کی ناک کٹ جائے گی۔
بھنڈارے ہمیں اپنے بھنڈارے کو صاف رکھنا چاہیے۔
نام بیچنا اکثر مصنف کو پیسوں کے لیے اپنا نام بیچنا پڑتا ہے۔
سبز باغ دکھانا ہمیں کسی کو جھوٹے سبز باغ نہیں دکھانے چاہیے۔

سوال نمبر 4 : درج ذیل میں درست جواب پر (درست) کا نشان لگائیے:

(الف) بڑھاپا دورثانی ہوا کرتا ہے :

(۱)طفولت کا
(۲)بچپن کا ✔
(۳)بلوغت کا
(۴)جوانی کا

(ب) بڑھیا کے جوان بیٹے مرگئے تھے :

(۱)پانچ
(۲)چھ
(۳)سات ✔
(۴)آٹھ

(ج) بدھ رام آدمی تھے :

(۱)چالاک
(۲)مکار
(۳)نیک ✔
(۴)بےوقوف

(د) روپا سورہی تھی :

(۱)آنگن میں ✔
(۲)کمرے میں
(۳)کوٹھری میں
(۴)برآمدے میں

(ہ) بدھ رام کی چھوٹی لڑکی تھی:

(۱)من چلی
(۲)لاڈلی ✔
(۳)ضدی
(۴)چنچل

سوال نمبر 5 : آپ اس سبق میں سے مرکب تام اور مرکب ناقص کی تین تین مثالیں تلاش کرکے لکھیے۔

مرکبِ تام مرکبِ ناقص
۱) بڑھاپا بچپن کا دورِ ثانی ہوتا ہے ۱) سبز باغ
۲) اتنی دیر ہوگئی کوئی کھانا لے کر نہیں آیا ۲) اکیلی عورت
۳) اب پیٹ بھر رولھا دانہ بھی مشکل سے ملتا ہے ۳) لمبے چوڑے وعدے

 

بوڑھی کاکی – 10 ملٹیپل چوائس سوالات (MCQs)

  1. بوڑھی کاکی  کی جائیداد کا وارث کون بنا تھا؟
    • A) ان کا بیٹا
    • B) ان کا بھتیجا
    • C) ان کی بیٹی
    • D) ان کے شوہر
    • صحیح جواب: B) ان کا بھتیجا
  2. بوڑھی کاکی  کی بنیادی ضروریات کیسے پوری ہوتی تھیں؟
    • A) آسانی سے
    • B) مشکل سے
    • C) کبھی نہیں
    • D) ہمیشہ خوشی سے
    • صحیح جواب: B) مشکل سے
  3. بوڑھی کاکی  کے گھر میں کس کے ساتھ ان کا خاص تعلق تھا؟
    • A) بدھ رام
    • B) لاڈلی
    • C) روپا
    • D) سکھ رام
    • صحیح جواب: B) لاڈلی
  4. بدھ رام کو کب کبھی اپنی بے انصافی کا احساس ہوتا تھا؟
    • A) ہمیشہ
    • B) کبھی نہیں
    • C) کبھی کبھی
    • D) جب وہ غصے میں ہوتے
    • صحیح جواب: C) کبھی کبھی
  5. روپا نے کاکی کو کس حالت میں دیکھا جب وہ کڑھاؤ کے پاس بیٹھی تھیں؟
    • A) خوش
    • B) رو رہی تھیں
    • C) سراسیمگی میں
    • D) بے تابی میں
    • صحیح جواب: D) بے تابی میں
  6. لاڈلی نے اپنے حصے کی کیا چیز بوڑھی کاکی کے ساتھ بانٹی؟
    • A) مٹھائی
    • B) کچوری
    • C) پوری
    • D) سموسہ
    • صحیح جواب: C) پوری
  7. رات کے کس وقت لاڈلی بوڑھی کاکی  کو پوریاں کھلانے کے لیے گئی؟
    • A) گیارہ بجے
    • B) دس بجے
    • C) بارہ بجے
    • D) نو بجے
    • صحیح جواب: A) گیارہ بجے
  8. بوڑھی کاکی  کے کمرے کا ماحول کیسا تھا؟
    • A) روشن
    • B) اندھیری
    • C) شور شرابہ
    • D) موسیقی سے بھرا
    • صحیح جواب: B) اندھیری
  9. روپا نے آخر میں بوڑھی کاکی کو کیا پیش کیا؟
    • A) معافی
    • B) پیسے
    • C) کھانا
    • D) نئی جائداد
    • صحیح جواب: C) کھانا
  10. بوڑھی کاکی  کے لیے کون سی بچی اکثر دکھی رہتی تھی؟
    • A) روپا کی بیٹی
    • B) بدھ رام کی بیٹی
    • C) لاڈلی
    • D) سکھ رام کی بیٹی
    • صحیح جواب: C) لاڈلی

Related Content

Boodhi Kaki (Afsana) By Munshi Premchand