عمر ابھی آٹھویں جماعت میں تھا، مگر کرکٹ بڑی عمدہ کھیلتا تھا۔ اکثر اپنے اسکول کی میٹرک کے لڑکوں پر مشتمل کرکٹ ٹیم میں کسی لڑکے کے بیمار ہونے یا کسی اور وجہ سے شریک نہ ہونے پر عمر کو ہی کھیلنے کا موقع ملتا اور عمر اپنی دھواں دھار بیٹنگ سے کرکٹ دیکھنے والے بچوں سے خوب داد پاتا۔
عمر کو نیا بیٹ لائے ہوئے ابھی کچھ دن ہی ہوئے تھے کہ بلا اپنے جوڑ کے پاس سے نکل گیا اور عمر کے ہاتھ میں بیٹ پکڑنے کا صرف دستہ ہی رہ گیا اور بقیہ حصہ دور جا گرا۔ عمر نے ایک نیا بیٹ پھر خریدا مگر یہ بھی کچھ دن ہی چلا اور ٹوٹ گیا۔
عمر اب بہت ہی پریشان تھا۔ اس نے اپنے والد سے ضد کرکے ایک نیا بیٹ پھر خریدا، مگر یہ کیا! یہ نیا بیٹ بھی چند دن ہی چل سکا اور وہیں جوڑ کے پاس سے پھر ٹوٹ گیا۔
عمر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے ایک بار پھر اپنے والد کو نیا بیٹ دلانے پر راضی کیا اور دوکان پر پہنچ کر ہر بیٹ کو ہاتھ میں لے کر اچھی طرح دیکھنے لگا اور زمین پر ٹک ٹک کرکے بیٹ کی مضبوطی کا اندازہ لگانے لگا۔
جب عمر نے کئی بیٹ دیکھ لئے تو دکاندار نے کہا، ”کچھ خریدنا بھی ہے یا…؟“ عمر نے دکاندار کو جواب دیا، ”انکل، میں بیٹ کی مضبوطی کا اندازہ لگا رہا ہوں، کیونکہ کئی بیٹ میں نے خریدے مگر سب ہی ٹوٹ گئے۔“ یہ کہہ کر عمر دوبارہ مختلف بلوں کی مضبوطی کا اندازہ کرنے لگا۔
عمر کے والد اسے اس طرح کرتے ہوئے دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ واقعی ”دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔“
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.