تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے۔
سولیوں پر ہمارے لبوں سے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے مہم کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شام ستم
ہم یہاں آئے جہاں تک قدم
لب پہ حرف غزل دل میں قندیل غم
غم تھا، ترے حسن کی
ہم دیکھ رہے ہیں
ہم جو تاریک راہوں پہ مارے گئے۔
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی۔
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی۔
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے لیے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا پایا
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب ہمارے قدم
مختصر کر کے درد کے لیے
کر گزرے جن کی خاطر جہانگیر ہم
جان گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے۔
کلام: فیض احمد فیض