نظر میں نت نئی حیرانیاں پھر

نظر میں نت نئی حیرانیاں پھر

سروں پہ روز نئے آسماں کے لیے پھر

اب اس فضا کی کثافت کیوں میں ہونا ہو؟

غبارِ دل ہے سو دل میں نہوں کے لیے پھر

اسے بچانا سو اب زیست کی نظر میں

آپ نشانِ دل بے نشانوں کے لیے پھر

قرارِجاں تو سرِ کوئے یار چھوڑ آئے

متاعِ زیست ہے لیکن پھر بھی

عجب ہنر کہتا ہے کہ دانشور پیکر میں

کسی کا بٹن کسی کی زباں کے لیے پھر

شاعر: پیرزادہ قاسم

(شعری مجموعہ؛ سالتیز ہوا جشن میںِ اشاعت، 1990)

نظر مین نت نئی ہیرانیاں لیا پھریے۔

ساروں پہ روز نیا آسمان لیا پھرے۔

Ab Uss Fazaa Ki Kasaafat Men Kiun Izaafa Ho

غبارِ دل ہے تو دل میں نہان لیا پھرے۔

یہ بچہ ہے تو اب زیست کی گواہی مرد

یہ نشان دل ہو نشان لیا پھریے

قرار جان تو سر کو یار چھور آئے

ماتا زیست ہے لیکن کہاں لیا پھریے

عجب ہنر کہ دانشواری کے پیکر مرد

کسی کے ذہن کسی کی زوبان لیا پھریے ۔

شاعر: پیرزادہ قاسم