وہ جوانی کی مستیاں توبہ
میری بادہ پرستیاں توبہ
رشکِ طاؤس ہے خرامِ ناز
لڑکھڑاتی ہیں ہستیاں توبہ
گھر کا رکھا، گھاٹ کارکھا۔
آپ کی سر پرستیاں توبہ
اہلِ زر کو قدر ہیں قادر
اِن کی سوچوں کی پستیاں تو
خوف آٹا دیکھ کر اِن کو
کیسے اُجڑی ہیں بستیاں توبہ
شیخ و ملّا کی فروشی دیکھیں
یہ مقدّس سی ہستیاں توبہ
جعفری یہ تو ہیں ضمیر فروش
اِن وزیروں کی پستیاں توبہ
کلام :مقصود جعفری (اسلام آباد)