جو خارِ مغیلاں تھا، وہ گلفام ہوا ہے۔
اب کاسۂ درویش یہاں جام ہوا ہے۔
لب بستہ یہاں پر محفوظ ہے۔
دشنام طرازی کا چلن عام ہوا۔
اک عمر سے آپ سرِ میکدہ کچھ رند ہیں۔
قسمت میں مگر دردِ تہہِ جام ہوا ہے۔
ہر شخص پہ الزام لگاتے ہیں دغا کا
ہر شخص یہاں موردِ الزام ہوا ہے۔
مَیں تو کیا دل کو حسینوں پہ چھچھور
یہ دل تو مرا مفت میں بدنام ہوا ہے۔
مظلوموں کی چیخوں کا یہ کہرام شاید ہے۔
برپا میرے سینے میں جو کُہرام ہوا ہے۔
جو جعفری دل میں اُس کو سرِ دار کہا تھا۔
یہ جرمِ وفا محبت سے عام ہوا ہے۔
کلام : ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)