درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

وہ اچھل کر ایک طرف ہو گیا۔ لومڑی نے اس پر پھر حملہ کیا اس ہنگامے میں ثریاوغیرہ کے منہ سے چیخیں نکل گئیں۔ ڈاکٹر نے ہنستےہوئے لومڑی کو پکڑا اور اسے پھر کٹہرے میں دھکیل کر کھڑکی بند کردی۔ لومڑی بدستور غر ائے جارہی تھی۔ کتا چپ چاپ کٹہرے میں چلا گیا۔

’’دیکھا آپ نے!‘‘ ڈاکٹر فریدی کی طرف دیکھ کر بولا ۔

فریدی نے سر ہلا دیا۔ وہ بالکل خاموش تھا اور ضرورت سے زیادہ سنجیدہ ، اس کے ہونٹ بھینچے ہوئے تھے ۔ آنکھوں کے حلقے اس طرح تنگ ہو گئے تھے جیسے وہ حال کی چکا چوند سے نظریں بچا کر مستقبل میں جھانکنے کی کوشش کر رہا ہو۔

’’لومڑی پر اس انجیکشن کا اثر عارضی ہے۔ ڈاکٹر بولا ’’تھوڑی دیر بعد وہ ہوش میں آجائے گی۔ یہ وہ نسخہ ہے جو نازی ڈاکٹر نے ایجاد کیا تھا۔ مچھلی جنگ عظیم میں اسے بڑی شدت سے استعمال کیا گیا۔ قریب قریب ہرلڑنے والے تازی کو اس قسم کے انجکشن دیئے جاتے تھے۔‘‘

’’اوہ!‘‘ فریدی کے منہ سے حیرت زدہ آواز نکلی۔

’’لیکن ہم نے اس میں بہت سی تبدیلیاں کر دی ہیں۔ ہم اس انجکشن کے ذریعہ بزدلوں کو ہمت والا بنا سکتے ہیں ۔ اس سلسے میں ہم کئی ایک تجربے اور کر رہے ہیں۔ اس انکشن کو ذرا کچھ اور تیز کردیا جائے تو تپ دق کے مریض اس سے اچھے ہوسکتے ہیں۔‘‘

’’آپ لوگوں کے کارنامے قابل قدر ہیں۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’میں کبھی آپ لوگوں سے تفصیلی ملاقات کروں گا۔‘‘ ’’یہ میر ا کارڈ اور یہ میرے ساتھی کا ۔‘‘ ڈاکٹر نے دو ملاقاتی کارڈ فریدی کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ غالباً اب آپ لوگ  شکارکھیلیں گےلیکن کوئی درندہ شایدی آپ کومل سکے۔

’’کیوں ؟ ‘‘فریدی نے حیرت سے کہا۔ تیندوے تو یہاں بکثرت ملتے ہیں۔‘‘

’’کبھی تھے لیکن اب نہیں ڈاکٹر بولا ۔’’ ان سب کو ہم نے اپنی تجرباتی مہم میں کھپادیا ۔ ‘‘

’’تجرباتی مہم‘‘ فریدی نے کہانہ انداز میں دُہرایا۔

’’جی ہاں ۔ بعض اوقات ہم وحشی درندوں کا خون انسان کے جسم میں ڈال کر اس کی بعض خامیاں دور کرتے ہیں ۔ ‘‘

’’اوہ فریدی نے کیا۔ ’’اچھا  ڈاکٹراس تکلیف کا بہت بہت شکریہ۔ آپ لوگوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ میں کوئی فرصت کا موقع نکال کر آپ سے ضرور ملوں گا۔ ‘‘

فریدی وغیرہ ڈاکٹر سے مصافہ کر کے کمپاؤنڈ سے باہر چلے آئے۔  پھاٹک سے گزرتے وقت فریدی نے نیپالی چوکیدار کے ہاتھ پر ایک پانچ روپے کا نوٹ رکھ دیا۔

’’میرے خیال سے تو اس کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ ‘‘شہنازنے راستے میں فریدی سے کہا۔

’’ اس قسم کی ضرور تیں صرف میں ہی سمجھتا ہوں۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔

یہ لوگ وہاں پہنچے جہاں سارجنٹ محمد مچھلیوں کا شکار کھیل رہا تھا اس نے دو تین کافی وزنی قسم کی مچھلیاں شکار کر لی تھیں اور اب گھنی جھاڑیوں کی چھاؤں میں اوند ھالیٹاپائپ پی رہا تھا۔ فریدی کو دیکھتے ہی اچھیل کر کھڑا ہو گیا۔

’’ فرمائیے !کوئی نئی شرارت فریدی نے مسکرا کر کہا۔

’’ جی نہیں ! ‘‘آپ کے لئے دلچپسی کا مشغلہ اور اپنے لئے ایک مستقل آفت‘‘حمید نے کہا۔

Leave a Comment