درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’ہم لوگ شہر سے شکار کھیلنے کی غرض سے آئے ہیں لیکن آپ کا سائن بورڈ دیکھ کر سب کچھ بھول گئے۔ ‘‘فریدی نے ہنس کر کہا پھر سنجیدگی سے بولا ۔‘‘ آپ لوگوں کا کارنامہ واقعی قابل ستائش ہے طیسی دنیا میں آپ کی یہ تھیوری یقینا ایک بہت بڑا انقلاب پیدا کر دے گی۔‘‘

’’شکریہ ڈاکٹر نے کہا ’’لیکن ابھی آپ ہمارے طریقہ علاج سے واقف نہیں ۔‘‘

’’اگر اس سے بھی مستفید ہو سکوں تو اپنی خوش قسمتی سمجھوں گا ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ضرور …ضرور!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’ آئیے میرے ساتھ ۔

 ڈاکٹر اُٹھا، اس کے ساتھ فریدی کے ساتھی سبھی اٹھ گئے وہ انہیں متعدد کمروں اور برآمدوں سے گھماتا ہوا ایک دوسری عمارت میں لایا فریدی محسوس کر رہا تھا کہ اس عمارت کو بنوانے میں ہزاروں روپے صرف ہوئے ہوں گے۔

جب وہ اس ڈاکٹر کی حماقت آمیز اور بے سروپا گفتگوں پر غور کرتا تو اسے حیرت ہونے لگتی۔ آخر یہ کیا تماشہ ہے۔ یہ لوگ یونہی بے مصرف تو اتنا چیر صرف نہیں کر رہے ہیں۔

ان حماقتوں کے پردے میں کوئی بہت ہی خطرناک قسم کی سنجیدگی کام کر رہی ہے۔

وہ لوگ ایک بہت بڑے کمرے میں آئے یہاں سائنسی تجربات کرنے کے بہت سے آلات رکھے ہوئے تھے۔

ایک طرف ایک زندہ چیتا پڑا ہوا تھا۔ جس کے چاروں پیر رسیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔

اس کے جبڑوں کے گرد ایک تار لپیٹ دیا گیا تھا تا کہ وہ اپنا منہ نہ کھول سکے۔ دوسرا ڈ اکٹر ایک آلے کی مدد سے اس کے جسم سے خون نکال کر شیشے کے ایک برتن میں اکٹھا کر رہا تھا۔

اس سے کچھ اور ہٹ کر چند لوگ کھڑے تجربے کو حیرت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

چیتے کے حلق سے درد و کرب کی وجہ سے عجیب قسم کی گھٹی گھٹی سی آواز میں نکل رہی تھیں۔

وہ آزاد ہونے کے لئے زور مار رہا تھا لیکن بندش اتنی سخت تھی کہ جنبش کرنابھی دشوار معلوم ہوتا تھا فریدی اپنے ہمراہی ڈاکٹر سے اس کے متعلق کچھ پوچھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ دفتًاچیتے کے منہ پر چڑھا ہوا تار کھسک کر زمین پر آرہا اور چیتے نے ایک چیخ ماری۔

مگر چیتے کی چیخ تھی یا بکرے کی آواز۔ وہاں پر کھڑے ہوئے سارے لوگ بوکھلا گئے۔

چیتا بدستور بکرے کی آواز میں چیخےجارہا تھا دوسرے ڈاکٹر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ نے لگیں۔ اس نے فریدی کے ساتھی ڈاکٹر کی طرف گھبرا کر دیکھا۔ فریدی کو  بیساختہ ہنسی آگئی۔ اس کے ساتھ والے ڈاکٹر نے بھی قہقہ لگایا۔

’’دیکھا آپ نے۔‘‘ اُس نے فریدی کی طرف مخاطب ہو کر کہا۔ ‘‘ہم لوگ اپنے مریضوں کو ہسانے کے لئے ایسےطریقے اختیار کرتے ہیں ۔‘‘

’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا ۔ ‘‘فریدی نے کہا۔

یہ سچ مچ بکرا ہے۔‘‘

’’فریدی نے متحر ہو کر دُہرایا۔

’’جی ہاں ہم نے اس پر چیتے کی کھال چڑھادی تھی ۔‘‘

Leave a Comment