درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

جیب سے ٹارچ نکال کر روشنی کی۔
مشین بدستور چل رہی تھی، کسی نے مین سوئچ آف کر دیا تھا جس کی وجہ سے پوری عمارت کی روشنی گل ہو گئی تھی۔
فریدی نے سوئچ آن کر دیا۔
عمارت پھر جگمگانے لگی۔
عمارت کے مختلف حصوں سے گولی چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
فریدی نے برآمدے میں آ کر بیہوش آدمی کو دیکھا۔
یہ ڈاکٹر وحید تھا اور وہ شخص جو اس کے ریوالور سے زخمی ہو کر گرا تھا، اس کا ساتھی ڈاکٹر آصف تھا۔
تھوڑی دیر بعد ڈاکٹروں کے آدمیوں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا۔
ادھر حمید والی پارٹی نے فیکٹری پر قبضہ کر لیا تھا۔
وہاں بھی کچھ آدمی تھے جنہیں گرفتار کر لیا گیا۔۔

دوسرے دن شام کا انسپکٹر فریدی سارجنٹ حمید اور کوتوالی انچارج آرلکنچو میں بیٹھےپانی پی رہے تھے۔

’’ ہاں یہ تو بتا یئے‘‘۔ جگدیش نے فریدی سے کہا۔ ’’کرنل سعید کی بیوی کا کیا قصہ ہے ۔

’’بہت معمولی سا کوئی حیرت انگیز واقع نہیں۔ ایسی حالت میں عموماً جو ان عورتیں جو کچھ کرتی ہیں وہی اس نے بھی کیا۔

کرنل سعید ڈاکٹر وحید کے زیر علاج تھا۔ اس دوران میں ان دونوں میں کافی بے تکلفی بڑھ گئی ۔ ڈاکٹر وحید کرنل سعید کے یہاں آنے جانے لگا۔ ڈاکٹر وحید جوان اور خوب صورت تھا ۔ کرنل سعید بوڑھا گھوسٹ اس کی بیوی اور ڈاکٹر وحید میں نا جائز تعلق ہو گیا ۔

کرنل سعید اس سے ناواقف تھا۔ ڈاکٹر نے اسے احمق بنار کھا تھا۔ وہ روز بروز اسے ایسی دوا دیتارہا جس سے اس کی جنسیت قریب قریب بلکل مردہ ہوگئی۔

اب اسے دوبارہ جو ان بنے کا خبط ہو گیا۔ کرنل سعید کا دوا چرانے والا واقعہ تو بتا چکا ہوں۔ اس کے بعد کرنل کو باہر جانے کا اتفاق ہوا۔

اس کا علم ڈاکٹر وحید کودبھی ہو گیا۔ وہ اسی رات کو جھریالی سے کرنل سعید کے یہاں آیا شامت اعمال کہ کرنل کی لڑکی نے انہیں داد عیش دیتے دیکھ لیا۔ یہ چیز ان دونوں کے لئے بڑی خطر ناک تھی ۔

ڈاکٹر وحید نے لڑکی کو پکڑ اور پھر اس نے اس کا گلا گھونٹ کر اسے مارڈالا  ۔ کرنل سعید کی بیوی اس پر گھبراگئی بڑی دیر تک دونوں سوچتے رہے کہ کیا کیا جائے کرنل کی بیوی کو ایک تدبیر سو جی۔ اس نے مردہ لڑکی کو ہیروں والا ہار پہنا کر ایک بورے میں بند کر دیا۔

Leave a Comment