درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

لیکن شاید آپ یہ نہیں جانتے کہ ابھی آپ کو ایک ایسی بیہودگی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ آپ زندگی پر موت کی ترجیح دینے لگیں گے۔
فریدی نے کہا اور تہ خانے سے چلا آیا۔

اسی دن شام کو جگدیش نے چھاپہ مارنے کے سارے انتظامات مکمل کرلئے۔
احتیاطًا مشین گن بھی لے لی گئی تاکہ ضرورت پڑنے پر وحشی درندوں کا حملہ روکنے کے کام آئے۔
اندھیرا ہوتے ہی پولیس کی لاریاں جھریالی کی طرف روانہ ہو گئیں۔
تجربہ گاہ سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر لاریاں روک دی گئیں۔
پولیس کے جوان تاریکی میں آہستہ آہستہ دونوں عمارتوں کی طرف بڑھنے لگے۔
پولیس والے دو ٹولیوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔
ایک ٹولی کا رُخ فیکٹری کی طرف تھا اور دوسری کا تجربہ گاہ کی طرف۔
تجربہ گاہ کی طرف جانے والی ٹولی کی قیادت فریدی کر رہا تھا اور دوسری عمارت کی طرف بڑھنے والے حمید کی رہنمائی میں آگے بڑھ رہے تھے۔

تجربہ گاہ کی دیواروں کے نیچے پہنچتے ہی کچھ سپاہیوں نے عمارت کا محاصرہ کر لیا اور کچھ فریدی اور کچھ جگدیش کے ساتھ صدر دروازے کی طرف پڑھتے گئے۔
صدر دروازہ ابھی کھلا ہوا تھا۔
چوکیدار بیٹھا اونگھ رہا تھا۔
فریدی پیچھے سے اس پر ٹوٹ پڑا۔
اس کے منہ سے آواز تک نہ نکل سکی۔
اس سے فرصت پانے کے بعد فریدی دوڑتا ہوا اندر گھس گیا۔
اس کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔
اندر پہنچتے ہی انہوں نے بے تحاشہ فائر کرنے شروع کر دیے۔
فریدی نے جلد سے جلد اس عمارت کی طرف پہنچ جانا مناسب سمجھا جہاں وحشی درندے تھے۔
وہ جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا۔
عمارت کے مکین اس غیر متوقع حملے کے لئے تیار نہ تھے۔
پہلے تو وہ یقیناً گھبرا گئے لیکن پھر انہوں نے بھی جوابی فائرنگ شروع کر دی۔
دو ایک نے دیواروں پر چڑھ کر نیچے کود کر بھاگنے کی کوشش کی لیکن باہر کھڑے ہوئے جوانوں نے انہیں باندھ لیا۔
ڈاکٹروں کے آدمیوں نے باقاعدہ مورچے بنائے تھے۔
وہ کمروں سے فائر کر رہے تھے۔
ساری عمارت کی روشنیاں گل ہو گئیں۔
فریدی کو پہلے ہی سے اس کی توقع تھی۔
اس لئے اس نے صدر دروازے پر کچھ آدمی چھوڑ دیے تھے۔
روشنی گل ہوتے ہی وہ ہوشیار ہو گئے۔
فریدی آہستہ آہستہ رینگتا ہوا اس کمرے کی طرف جا رہا تھا جہاں بجلی پیدا کرنے کی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔
اندھیرے میں دو آدمی گھبرائی ہوئی سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے۔

’’لیکن اب ہو ہی کیا سکتا ہے، اس میں شک نہیں کہ اس سے ہمارے آدمیوں کو بھی نقصان پہنچے گا لیکن خود کو بھی بچانا ضروری ہے۔‘‘
ایک بولا۔

’’مگر وہاں تک پہنچنا دشوار ہے،‘‘ دوسرے نے کہا۔
’’ادھر سے جاؤ۔
بغل والے کمرے کی کھڑکی سے دوسری طرف کود جاؤ۔
اس کھڑکی کی دو سلاخیں نکلی ہوئی ہیں۔
تم بآسانی گزر جاؤ گے۔
ادھری وہ گیس رکھی ہوئی ہے۔
بس ڈھکن کھول کر چھوڑ دینا۔
تم نے یہ بڑی عقلمندی کی کہ دو گیس ماسک لیتے آئے۔
… اچھا گیس ماسک لگا لو، میں بھی لگائے لیتا ہوں۔
جلدی کرو، جلدی جاؤ۔‘‘

فریدی کے لئے یہ بہت ہی خطرناک لمحہ تھا۔
اسے فوراً ہی کچھ کرنا تھا۔
اگر وہ گیس، جسے وہ منتشر کرنے جا رہا تھا، کوئی بہاؤ کن گیس ہوئی تو کیا ہوگا؟
جیسے ہی دوسرا آدمی الگ ہٹا، فریدی کے پستول سے شعلہ نکلا اور وہیں ڈھیر ہو گیا۔
دوسرے ہی لمحے میں فریدی دوسرے آدمی پر تھا جو اپنے ساتھی کو گرتے دیکھ کر بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر کی جدوجہد کے بعد فریدی نے اسے قابو میں کر لیا۔
فریدی نے اس کی کنپٹیوں پر اتنے گھونسے مارے کہ وہ بے ہوش ہو گیا۔
اسے وہیں چھوڑ کر وہ مشینوں والے کمرے میں آیا۔

Leave a Comment