درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’یہ نہیں صاحب اس کی تو کوئی بات ہی نہیں‘‘۔ جگدیش نے کہا۔ اس پر لکڑی کے گٹھے لدے ہوئے تھے جن میں شراب بھری تھی۔ ٹرک الٹنے سے کئی گٹھے ٹوٹ گئے اور شراب بہہ نکلی…‘‘

’’ٹرک پر کتنے آدمی تھے ۔ فریدی نے پوچھا۔

’’صرف ڈرائیور تھا۔ وہ اسی وقت مر گیا۔

’’ٹرک کس کا تھا …‘‘

’’یہ ابھی تک نہیں معلوم ہو سکا‘‘۔

’’اس نمبر کا کوئی ٹرک اس شہر میں آج تک رجسٹرہی نہیں ہوا۔

’’ڈرائیور کے متعلق معلوم ہو سکا کہ وہ کون ہے‘‘۔

’’نہیں یہ بھی نہیں معلوم ہو گا‘‘۔

’’اس کا حلیہ یاد ہے‘‘۔

’’جی ہاں‘‘۔

’’پھولی ہوئی ناک تھی ‘‘؟ فریدی نے پوچھا۔

’’جی ہاں …لیکن …کیا آپ نے دیکھا ہے‘‘۔

’’گھنی اور چڑھی ہوئی مونچھیں ۔ ایک کا اوپری حصہ تھوڑ اسا کٹا ہوا۔ بائیں گال پر ایک بڑا سا اُبھرا ہواتِل‘‘۔

’’بالکل یہی …سو فیصد یہی ‘‘۔ جگدیش بے صبری سے بولا۔

’’ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں ۔ فریدی نے مسکرا کر کہا۔ ’’ اور یہ بھی جانتا ہوں کہ شراب کہاں بنتی ہے اور کہاں سے تقسیم ہوتی ہے‘‘۔

’’تو کیا تم انہیں پکڑنا چاہتے ہو ۔ فریدی نے کہا۔

’’یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔ جگدیش چہک کر بولا۔

’’بھلا بھائی جگد یش صاحب ڈی۔ ایس پی بننے کی فکر نہ کریں گئے ‘‘۔ حمید نے ہنس کر کہا۔

’’نہیں بھائی ابھی اس کی اہمیت مجھ میں نہیں پیدا ہوئی ۔‘‘ جگدیش نے کہا۔

فریدی نے سارا ماجرا جگدیش سے بیان کر دیا اور اسے اپنی اسکیم بھی بتائی ۔ جگدیش نے اس کے خیال کے مطابق انتظامات کرنے کا وعدہ کیا۔

جگدیش کو رخصت کرنے کے بعد فریدی تہ خانے میں آیا۔ کرنل سعید بہت زیادہ  نڈھال  نظر آرہا تھا۔ فریدی کو دیکھ کر اس نے بر ا سا منہ بنایا۔

’’کیا مجھے عمر قید کی سزادی گئی ہے ۔ وہ غرا کر بولا۔

’’گھبرائے نہیں کرنل صاحب آپ بہت جلد چھوڑ دیئے جائیں گئے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ اس وقت میں آپ سےایک بات دریافت کرنے آیا ہوں‘‘۔

Leave a Comment