دوسرے دن صبح فریدی گھر پہنچا اس کے بازوؤں اور ہاتھوں پر گہری گہری خراشوں کے نشان تھے۔ کپڑے پھٹ گئے تھے۔ سر کے بال گرد میں آٹے ہوئے تھے۔ حمید اسے اس حال میں دیکھ کر گھبرا گیا۔
’’یہ کیا ہوا ‘‘۔ وہ بے ساختہ بولا۔
’’کچھ نہ پوچھو دو خطرناک کتوں سے بڑی سخت جنگ کرنی پڑی۔ ‘‘فریدی نے جواب دیا۔
’’تو کیا آپ تجربہ گاہ میں گھس گئے تھے‘‘۔
’’اس کا موقع ہی کہاں ملا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ لوگ اپنے کچھ کتے باہر بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔
جو رات بھر جھریالی کے سنسان علاقے میں گھومتے پھرتے ہیں۔ رات ہوتے ہی میں ٹیلوں کے درمیان چھپ گیا تھا۔ خیال تھا کہ بارہ بجے عمارت میں گھنے کی کوشش کروں گا۔ مگر ان کم بختوں نے وہیں آلیا۔ انہیں مار بھی نہیں سکتا ورنہ پستول تو تھا میرے پاس گولی چلنے کی آواز یقیناً انہیں ہوشیار کردیتی‘‘۔
’’ خیر اب آپ آدمی بنے اس کے بعد اس کے متعلق کچھ سوچا جائے گا‘‘۔ حمید نے کہا۔
’’فریدی نےغسل کر کے لباس تبدیل کر لیا۔ حمید نے زخموں کی مرہم پٹی کی۔ ناشتہ کرنے کے بعد دونوں لائبریری میں بیٹھے۔
’’اب کیا ارادہ ہے ‘‘۔ حمید نے پوچھا۔
’’اب چھاپہ مارنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا۔ رات کو چھپ چھپ کر وہاں جانا انتہائی ناممکن ہے کیوکہ ان کے کتے بہت خطرناک ہیں۔ چھا پہ مارنے کی صورت میں بھی ہمیں کافی احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ اگر انہوں نے وحشی در ندوں کو کھول دیا تویہی مشکل کا سامنا ہو جائے گا۔ کم از کم ایک س مسلح سپائیوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ میں جانتا ہوں کہ فیکٹری اور تجربہ گاہ دنوں پر بیک وقت چھاپہ مارا جائے ‘‘۔
’’واقعی وحشی درندوں کا مقابلہ بڑاخطر ناک ہے‘‘۔ حمید نے کہا۔ ’’ اگر وہ آزاد ہو گئے تو قیامت بھی آجائے گی۔ وہاں شیر بھی ہیں۔ میں نے اس دن بھی شیروں کے دھاڑنے کی آواز سنی تھی۔
’’ لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے ہمیں اس عمارت کی طرف جانے سے روک کیوں دیا تھا؟ ‘‘وہاں سے شیروں کے دھاڑنے کی آواز ضرور آئی تھی لیکن یہ تو سوچو کہ انہیں ان کمروں میں کھانا وغیرہ کس طرح دیا جاتا ہوگا۔
درواز ےیقیناً کھولنے پڑتے ہوں گے اور یہ چیز کھانا دینے والوں کے لئے انتہائی خطر ناک ہے۔ میری سمجھ میں تو یہ چیز قطعی نہیں آئی‘‘۔
’’واقعی یہ بات قابل غور ہے ۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’ بند کمروں میں شیروں کو رکھنا ناممکن ہے پھر کیا بات ہے‘‘۔
’’جو بات بھی ہے عنقریب ظا ہر ہو جائے گی۔ فریدی نے کہا۔ بہر حال ہمیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ اندر پہنچتے ہی کسی طرح شیروں والی عمارت پر قبضہ کر لیں ‘‘۔
’’ جگدیش سے گفتگو کی جائے ‘‘۔ حمید بولا۔’’ پہلےیہ تو معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ اتنا انتظام کر سکے گا یا نہیں ‘‘۔
فریدی اور حمید کو تو الی جانے کا ارادہ کر ہی رہے تھے کہ خود جگدیش وہاں آ گیا۔ ’’کہیے جناب کیا کوئی نئی مصیبت ۔‘‘
’’کیوں ؟ ‘‘فریدی نے پوچھا۔
’’ ارے صاحب نہ جانے کیوں آج کل یہاں وارداتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے‘‘۔
’’ کوئی نئی واردات ہوئی کیا ۔ فریدی نے پوچھا۔
’’جی ہاں… کل رات کو کلائیو روڈ پر ایک ٹرک الٹ گیا‘‘۔
’’تو اس میں ایس پی صاحب کے بگڑنے کی کیا بات ہے ۔ حمید نے کہا۔
’’ ٹرک الٹنے کی ذمہ دار پولیس تو ہو نہیں سکتی‘‘۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.