درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

دوسرے دن صبح جھریالی میں ستونوں کی فیکٹری اور ڈاکٹروں کی تجربہ گاہ کے درمیان میں دو گھسیارے گھاس چھیل رہے تھے۔ قریب ہی ایک ٹوٹی پھوٹی سی گھوڑا گاڑی کھڑی تھی جسے تانبا وہ گھاس لادنے کے لئے لائے تھے۔ یہ دونوں حمید اور فریدی تھے۔

’’ٹھیک ہی کہا تھا اس نجومی نے ۔‘‘حمید نے گھاس چھیلتے چھیلتے سر اٹھا کر کہا۔

’’کیا کہا تھا فریدی نے پوچھا۔

’’یہیں کہ تم بی۔ اے پاس کر کے گھاس چھیلو گے ۔‘‘ حمید نے کہا۔ ’’آج میں اس کا معتقد ہو گیا‘‘۔

اور میں شروع سے معتقد تھا ۔ فریدی مسکرا کر ہوا۔

’’تم نے اس حملے میں گھاس چھیلنے کے علاوہ آج تک اور کیا ہی کیا ہے ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’کیا یہ میرا عظیم ترین کارنامہ نہیں ہے کہ میری وجہ سے آپ اتنے مشہور ہو گئے ۔ دُنیا سمجھتی ہے کہ یہ سارے کا رنام آپ کے ہیں لیکن اب سے سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی نیک نفس اس حقیقت پر سے پردہ ضرور اٹھا دے گا جس طرح شیکسپیر کے ڈراموں کی حقیقت واضح ہو گئی ہے۔ ڈرامے لکھے بے چارے فرانسنس بیکن نے اور نام شیکسپئر کا ہوا۔

اب ایک امریکن صاحبزادے نے نیا انکشاف کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ دبیکن نے نہیں بلکہ مار لونے لکھے ہیں۔ اسی طرح سو سال کے بعد میرا نام ہوگا اس کے بعد کوئی اللہ کا بندہ یہ ثابت کر دے گا کہ فریدی کے کا رنامےحمید کے نہیں بلکہ انسپکٹر جگدیش کے رہین منت ہیں ‘‘۔

’’ گھاس چھیلو میاں گھاس۔‘‘ فریدی مسکرا کر بولا ۔ ’’اوقات پر رہو۔شیکسپئر بیکن اور مارلو کا تذکرہ کرنے سے کیا  فائدہ۔ میں جانتا ہوں تم ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ واقفیت رکھتے ہو یا پھر شاید تم اس گھوڑے پر رعب ڈالنے کی کوشش کر رہے ہو کہ تم در اصل گھسیارے نہیں بلکہ گریجویٹ ہو ‘‘۔

’’عزت افزائی کا شکریہ۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’ خیر…. خیر چھوڑو ان باتوں کو اب کیا دن بھر گھاس ہی چھیلتے رہیں گے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ تم فیکٹری کی طرف بڑھو اور میں تجربہ گاہ کی سمت چلتا ہوں‘‘۔

دونوں نے اپنے اپنے منہ پھیر لیے حمید کورہ رہ کر جھلاہٹ سوار ہورہی تھی۔ آخر اس حماقت کی کیا ضرورت تھی ۔ مگر وہ بول ہی کیا سکتا تھا کیونکہ بعد میں اس کو احمق بننا پڑتا تھا ۔ جیسے کے ستون ہی کے معاملے میں اسے کافی خفت اٹھانی پڑی تھی اس لئے فریدی کی اس اسکیم میں زیادہ دخل در معقولات کرنے کی ہمت نہ پڑی آہستہ آہستہ دھوپ تیز ہوتی جارہی تھی۔ یہ لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کا کافی سامان لائے تھے ۔

فریدی نے طے کیا تھا کس گردن میں کوئی خاص بات نہ معلوم ہوسکی تو سید حمید کو گھوڑے گاڑی پر گھاس کے گھروں کے ساتھ شہر روانہ کر دے گا اور خود رات کود ہیں رہ کر کھوج لگانے کی کوشش کرے گا۔

دن آہستہ آہستہ ڈھل رہا تھا۔ حمید بری طرح تھک گیا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی سیاسی دوڑ گئی تھی آنکھوں کے گرد مٹیائلےرنگ کے حلقے نظر آنے لگے تھے۔ اس کے بر خلاف فریدی کے چہرے کی تازگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ دفعتاً اس  نے حمید کو آواز دی۔ حمید بے دلی سے تقریباً گھسٹتا ہوا اس تک پہنچا۔

Leave a Comment