درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’گلاس لگاؤ۔‘‘ فریدی نے کہا اور ستون کو جھکا دیا۔ گلاس بھر گیا حمید حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔

’’کیوں قبلہ حمید صاحب کتنی نفیس شراب ہے‘‘۔ فریدی ہنس کربولا ۔ اگر کوئی حرج نہ ہو تو تھوڑی ہی چکھ کردیکھئے ۔ ‘‘

حمید نے گلاس منہ میں لگا کر ہلکی ہی چسکی لی۔ فریدی نے  ڈھکن بند کر کے ستون کو ایک کونے میں کھڑا کر دیا۔

’’ واقعی بہت عمدہ ہے ‘‘۔ حمیدبولا ۔’’ مگر یہدیسی تو نہیں معلوم ہوتی‘‘۔

’’سو فیصد دیسی ہے‘‘ ۔ فریدی نے کہا ۔’’ کیسے چُوہے کے بِل سے ہاتھی نکلایا نہیں۔ ‘‘

’’ مانتا ہوں استاد حمید نے کہا۔ ’’ اب مجھے اس کیس میں کچھ کچھ دل چسپی پیدا ہوئی ہے۔ مگر یہ آپ کومل کیسے گیا ‘‘۔

’’کافی پاپڑ بیلنے پڑے ہیں ‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔ ’’یہ مجھے سو روپے میں ملا ہے اور جو خطرات مول لینے پڑے ہیں۔ وہ الگ ہیں۔‘‘

’’ یعنی۔‘‘ حمید نے کہا۔

’’چوکیدار کو سو روپے رشوت دینی پڑی۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے ایک ستون کی سخت ضرورت ہے اس نے کہا کہ صبح کو وہاں سے خریدا جا سکتا ہے۔

میں نے سوروپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے حیرت ہورہی تھی میری حماقت پر کہ میں ایک ستون کے لئے اسے سوروپے دے رہا ہوں ۔

غالباً اسے کچھ شُبہ ہو گیا تھا۔ ابھی ہم لوگ اس گفتگو میں مشغول ہی تھے کہ وہاں ایک ٹرک آکر رُکا میں جلدی سے چھپ گیا۔

اس پر سے دو آدمی اترے چوکیدار نے انہیں سلام کیا اور وہ اندر چلے گئے ۔ تھوڑی دیر بعد، میں نے دیکھا کہ دو ستون ڈھورہے ہیں۔ انہوں نے چوکیدار کو بھی مدد کے لئے بلایا۔ چوکیدار کو میں نوٹ دے ہی چکا تھا۔

میں نے واقعی یہ ایک زبر دست حماقت کی تھی لیکن یہ دیکھ کر اطمینان ہو گیا کہ نہ تو اس نے میرے غائب ہو جانے پر کسی قسم کی حیرت کا اظہار کیا اور نہ ان لوگوں سے میرے متعلق کچھ کہا۔ وہ لوگ بدستور اپنے کام میں مشغول رہے۔

چوکیدار نے مجھے چھپتے دیکھ لیا تھا تھوڑی دیر بعد وہ میرے پاس آکر آہستہ سے بولا کہ میں ان لوگوں کو باتوں میں لگاتا ہوں تم شرک میں سے ایک ستون اٹھا لے جاؤ۔ اس طرح میں اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا ‘‘ ۔

’’اب کیا ارادہ ہے ‘‘۔ حمید بولا۔

’’گھسیارہ بننے کا۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’حمید ہنسنے لگا۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ فریدی نے کہا۔ ’’ ہم لوگ گھسیاروں کے بھیس میں جھریالی چلیں گئے‘‘۔

’’آخر اس کی ضرورت ہمیں معلوم ہی ہو چکا ہے کہ ستون بنانے والے کارخانے میں در اصل شراب بنتی ہے۔ اگر ہم نے انہیں دھوکے میں ڈال کر چھاپہ مارا تو وہاں سے کوئی چیز ہٹابھی نہ سکیں گے۔ لہذا خواہ  مخواہ تو گھاس پھیلنے سے کیا فائدہ‘‘۔

’’میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ مجھے دونوں عمارتوں کا تعلق دریافت کرناہے اگر ہم نے اس سے قبل چھاپہ مارا تو ہمارایہ حملہ ادھورا ہوگا اور شاید نا کام بھی۔

Related Content

پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

bhayanak aadmi by ibn e safi

بھیانک آدمی-عمران سیریز- ابنِ صفی

Khaufnaak Imarat Novel By Ibn-E-Safi

خو فنا ک عمارت-عمران سیریز- ابنِ صفی

Leave a Comment