درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’کرنل کی بیوی پر کسی خاص پریشانی کے اثرات‘‘۔

’’ میں اسے زیادہ قریب سے نہیں دیکھ سکا ‘‘۔

’’اچھا فریدی نے کار کو پھر کرنل سعید کے بنگلے کی طرف موڑتے ہوئے کہا ۔ ابھی تمہارا کام ختم نہیں ہوا۔ تمہیں یہ بھی دیکھناہے کہ وہ کب اور کس حالت میں گھر واپس آتی ہے۔‘‘

’’ بہت اچھا‘‘۔

’’یہ فریدی نے اس کے ہاتھ پر دس روپے کا نوٹ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’رات کا خرچ ‘‘۔

حمید بے خبر سور ہا تھا ۔ فریدی نے اسے جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا دیا۔

’’ خیریت ،خیریت حمید نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا پھر اس کی نظر گھڑی کی طرف گئی ۔’’ اف فوہ۔ ابھی تو تین ہی بجے ہیں ‘‘ ۔ حمید نے فریدی کو گھور کر دیکھتے ہوئے کہا ۔ کون سی آفت آگئی‘‘۔

’’ کچھ نہیں۔ چوہے کے بِل سے جو ہاتھی نکلا ہے تمہیں دکھانا چاہتا ہوں اور اسی وقت تمہیں اس کا مہاوت بھی بتاؤں گا ‘‘۔ فریدی ہنس کر بولا۔

’’یعنی‘‘

’’آؤ میرے ساتھ ‘‘۔ فریدی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتے ہوئے کہا۔

وہ دونوں دوسرے کمرے میں گئے۔ انہیں ستونوں میں کا ایک جو انہوں نے ٹرک پر دیکھے تھے فرش پر پڑا ہوا تھا۔ کیا خیال ہے ۔ فریدی حمید کی طرف دیکھ کر بولا ۔

’’خوا مخواہ میری نیند خراب کی ‘‘۔ حمید بڑبڑایا۔

’’کیا تم مجھے اتنا احمق سمجھتے ہو کہ میں خواہ مخواہ اسے لاد کر یہاں لاؤں گا ‘‘۔ فریدی نے کہا۔

’’تو کچھ بولیے بھی نا ‘‘حمید نے اکتا کر کہا۔

’’تم سنتے کب ہو‘‘۔

’’اچھا سن رہا ہوں‘‘۔

’’ کیا تم اسے بانس کا بنا ہوا سمجھتے ہو‘‘۔ فریدی نے ستون کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

’’جی نہیں میرا خیال ہے کہ یہ خالص سونے کا بنا ہوا ہے ‘‘۔ حمید طنزیہ لہجے میں بولا ۔

’’میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ذرا اسے قریب سے دیکھو اس کی مصنوعی گانٹوں پر نہ جاؤ ۔

حمید جھک کر اسے دیکھنے لگا۔ واقعی کمال کردیا۔ حمید اٹھ کر بولا۔ لیکن آخر اس میں اتنی پریشانی کی کیا بات ہے۔

بھلا اس مصیبت گری کو جرم کیسے قرارد یا جاسکتا ہے۔ اگر شیشم کی لکڑی کا ستون یہ بنایا گیا جو بانس کا معلوم ہو تو کون سی مصیبت آگئی واقعی کاری گرنے کمال کر دیا ہے‘‘۔

’’لیکن یہ کمال دکھانے کی ضرورت ظاہر ہے کہ انہیں نمائش میں تو جانا نہیں ہے‘‘ ۔ فریدی نے کہا۔

’’ہوگا  صاحب کچھ ‘‘۔حمید نے اکتا کر کہا۔’’آپ تو خواہ مخواہ ہر چیز کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔‘‘

’’اچھا اب اگر واقعی تم اس کا کمال دیکھنا چاہتے ہو تو  وہ گلاس  اٹھاؤ۔‘‘فریدی نے کہا اور ستون کو اُٹھا کر زمین  پر بٹھتے  ہوئے  اسے اپنے زانوں پر رکھ لیا سرےسرے پر لوہے کے رنگ چڑھے ہوئے تھے فریدی نے انہیں گھمانا شروع کرد یادوسر ہی لمحے میں رنگ ایک ڈھکن سمیت ستون سے الگ ہو گئے اور کوئی سیال شےستون سے  ٹپکنے لگی۔

’’ ارے !‘‘حمید اچھل کر بولا ۔

Leave a Comment