درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’وہ کیسے ‘‘!

’’میں ایک رپورٹ پیش کر دوں گا کہ موجودہ حالت میں درندوں کا رکھنا خطر ناک ہے۔ فریدی بولا۔

’’ہم آپ کے انتہائی ممنون ہوں گے‘‘۔

’’لیکن یہ تو بتا  ئیےکہ آپ شیر رکھتے ہی کیوں ہیں ۔ حمید نے پو چھا۔ ان سے ہم بزدلوں کو شیر بنانے میں مدد لیتے ہیں ۔ ڈاکٹر وحید نے کہا۔

’’یعنی‘‘

’’شیر کے غدود کے انجکشن۔‘‘

’’ہاں صاحب اگر آپ کسی کو گدھے کے غدود کے انجکشن دیں تو کیا ہو‘‘۔ حمید نے مسکرا کر پوچھا۔

’’تو وہ آپ کی طرح فضول بکواس کرے گئے ۔ فریدی نے جھنجھلا کر کہا ڈاکٹر وحید ہنسنےلگا۔

’’ اچھاڈ اکٹر اس تکلیف دہی کی معافی چاہتا ہوں ۔ فریدی نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ارے اس میں تکلیف کی کیا بات ہے‘‘۔ وحید نے کہا۔’’مجھے خوشی ہے کہ آپ نے ہمیں اس قابل سمجھا۔ فریدی اور حمید کار میں بیٹھ کر شہر کی طرف روانہ ہو گئے۔

’’کیوں حمید کیا خیال ہے ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’ ان لوگوں پر تو کسی قسم کا شبہ کرنے کو دل نہیں چاہتا ‘‘۔ حمید بولا۔

’’کیوں‘‘۔

’’بے چارے نے سب کچھ صحیح صحیح تو بتادیا ‘‘۔

’’ خیر اس کا علم تو مجھے کرنل سعید سے گفتگو کرنے کے بعد ی ہو گیا تھا کہ وہ اپنی ان حرکتوں کا ذمہ دار خود ہے‘‘۔

’’تو پھر یہاں تک دوڑے آنے کی کیا ضرورت تھی‘‘۔

’’محض اپنے اطمینان کے لئے ۔ فریدی نے کہاکہ کوئی اور خاص بات تم نے مارک کی۔

’’کوئی نہیں مجھے تو کوئی خاص بات نہیں دکھائی دی‘‘۔

’’اس لئے کہتا ہوں کہ تم کبھی ایک کامیاب جاسوس نہیں ہو سکتے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ کیا تم نے یہ چیز نہیں نوٹ کی کہ ڈکٹر وحید کو تو کرنل سعید کے گھر جانے کا اقرار ہے لیکن کرنل کی بیوی اس سے انکار کرتی ہے ۔

’’اوہ تو پھر آپ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔‘‘

’’ یہی سوچ رہا ہوں کہ کیا نتیجہ اخذ کروں‘‘۔

’’ بہر حال یہ چیز تو ظاہر ہوگئی کہ کرنل کے پاگل پن اور اس کی بیٹی کی گمشدگی میں کوئی تعلق نہیں۔ اب یہ بتا ئےکہ کرنل

کا کیا ہوگا۔

’’جب تک کہ اس کی لڑکی کے متعلق نہ معلوم ہو جائے اسے تہ خانے ہی میں رکھوں گا۔‘‘

Leave a Comment