درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

غلبًاآپ کا مطلب یہ ہے کہ کرنل کی بیوی اس بچی کو اپنی راہ سے  ہٹانےکے بعد اب خود کرنل کا خاتمہ کر دینا چاہتی ہے۔ ’’حمید نے کہا۔

’’میں اتنی جلدی نتائج نکال لینے کا قائل نہیں ۔ ’’فریدی نے کہا۔

’’پھر آپ کا کیا خیال ہے۔‘‘

’’ابھی تک کسی خاص نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔‘‘

’’کرنل سعید کی بیوی کو تو آپ نے دیکھا ہوگا۔ حمید نے کہا۔‘‘

’’ہاں‘‘

’’اشرف کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ کافی حسین ہے۔‘‘

’’ہاں ہے تو حسین‘‘

’’ اگر میں اس سے عشق شروع کر دوں تو کیسی رہے۔‘‘

’’ہر جگہ یہ تدبیر کام نہیں آسکتی ۔ فریدی نے کہا ۔ ایسی حماقت نہ کر نا ہماری ان حرکتوں سے یہاں کے سارے جرائم پیشہ واقف ہو چکے ہیں ۔ اب کوئی عورت دھو کا نہیں کھا سکتی“۔

’’یہی تو سب سے بڑی بدنصیبی ہے۔ ‘‘حمید اپنے چہرے پر اُداسی طاری کرتا ہوا بولا۔ بہر حال آپ نے اس کی بیوی کے متعلق کیا انداز ہ لگایا ہے۔‘‘

’’صورت سے تو وہ کسی طرح بھی مجرم نہیں معلوم ہوتی ۔ فریدی نے کہا۔

’’یہی اس کے مجرم ہونے کی سب بڑی دلیل ہے۔‘‘

’’یہ نظریہ بھی ہر جگہ کارآمد نہیں ہوتا ۔‘‘

’’پھر آخر کار آمد ہوتا کیا ہے۔‘‘

’’ٹھنڈے دل سے ہر معاملے پر غور کرنا ہوگا۔‘‘ فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔

’’اونہہ ہوگا ۔‘‘ حمید بیزاری سے بولا۔

تہ خانے سے واپس آنے کے بعد فریدی گہری سوچ میں ڈوب گیا اور حمید کچھ  اکتایاہوا اِدھر اُدھر ٹھلنےلگا۔

’’تم نے کیا اندازہ لگایا۔ فریدی بولا۔

’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔ ‘‘

’’ آدمی سخت قسم کا ہے ذرا مشکل ہی سے کچھ اُگلے گا۔ فریدی  بولا۔

’’لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آتی۔ حمیدنے کہا۔ اگر وہ  بناہوا پاگل تھا تو اسے اپنے پاگل پن کا اظہار صرف اس وقت کرنا چاہئے تھا جب اسے دیکھنے والے موجود ہوتے ۔

Leave a Comment