درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’عجیب احمق آدمی ہو، کیا اتنے دنوں سے بھاڑ ہی جھونک رہے ہو۔ ارے بھئی وہ سب انسپکٹر میں ہی ہوں گا ۔ ‘‘

’’ اوہ جگدیش چہک کر بولا ۔ ’’ تو گویا آپ کی سچ  مچ  کیس میں دلچسپی لے رہے ہیں ؟‘‘

’’یوں ہی سمجھ  لو۔‘‘

’’تب تو یہ کوئی معمولی کیس نہیں معلوم ہوتا ۔‘‘

’’بہت ممکن ہے ایساہی ہو۔‘‘ فریدی نے کہا نہیں کوئی ضروری کام تو نہیں کرتا ہے۔‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’تب تم فورا ًکرنل کے یہاں چلے جاؤ۔‘‘ فریدی نے اٹھتے ہوئے کہا۔

جگدیش ایک ٹیکسی  پر کو توالی کی طرف روانہ ہو گیا اور فریدی سڑک پار کرتا ہوا گھر جانے کے بجائے ایک پتلی سی گلی میں میں مڑ گیا۔

 اس نے شہر کے متعدد چھوٹے موٹے ہوٹلوں میں کمرے کرائے پر لے رکھے تھے جنہیں وہ اکثر کسی نہ کسی خاص مقصد کے لئے استعمال کرتا رہتا تھا دو تین جنگ  گلیاں طے کرنے کے بعد وہ ایک پوسیده ی قدیم طرز کی عمارت کے سامنے پہنچ کر رک گیا۔

یہ ایک گندہ سا ہوٹل تھا۔ جہاں کم حیثیت کے لوگ آکر قیام کیا کرتے تھے۔ ان میں زیادہ تر د میں علاقوں کے مقدمہ باز زمیندار ہوا کرتے تھے۔

اس کا مالک شہر کے مشہور بدمعاشوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ فریدی کو دیکھتے ہیں وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ ڈرو نہیں چل کر میرا کمرہ کھول دو۔‘‘

’’اس نے میز کی کنجیوں کا گچّھا نکالا اور ایک طرف چلنے لگا۔

’’تمہارے اس نئےدھندے سے میں خوش نہیں ہوں۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’جی کون سانیا دهنده !‘‘

’’ دیکھو مجھ سے اڑنے کی کوشش نہ کرو۔‘‘

’’سچ مچ میں نہیں سمجھا۔‘‘

’’کمرہ نمبر دس میں کون ہے؟‘‘

’’دیکھو پو لیس کو اطلاع مل چکی ہے کہ تمہارے آدمی دیباتوں سے بھولی بھالی لڑکیوں کو بھگا لاتے ہیں اور تم ان سے پیشہ کراتے ہو۔ میں نے کئی بار تمہیں  سمجھایاکہ ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ کیا یہ ہوٹل تمہارے اخراجات کے لئے کافی نہیں۔ ’’میں میں ۔مگر‘‘

’’فضول باتیں چھوڑ و میرے آگےتمہارا کوئی جھوٹ نہیں چل سکتا۔‘‘

’’جی بات یہ ہے کہ‘‘

’’کوئی بات نہیں ہے۔ فریدی کڑے لہجے میں بولا۔‘‘ ان لڑکیوں کو آج ہی یہاں سے بٹاکر ان کے گھروں کو بھجوا دو اور نہ کل تمہارے ہاتھوں میں ہھکڑیاں ہوں گی۔ پولیس کسی مناسب موقع کی منتظر ہے۔‘‘

’’جی بہت اچھا۔‘‘

Leave a Comment