درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’پیرو مرشد‘‘ حمید نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’ آپ نے وہ مشورہ دیا ہے کہ میری پشت ہاپشت آپ کی احسان مند رہیں گی۔

لیکن اے طبیب روحانی والے رحمت یزدانی یہ دنیا سرائے فانی ہے۔

آج مرے کل دوسرا دن ، پرسوں تیسرا دن، نرسوں چوتھا دن، غرضیکہ اسی طرح دن گزرتے جائیں گے وغیرہ وغیرہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس منصب عاشقی کے لائق مجھے اپنے علاوہ اور دوسر انظر نہیں آتا ۔‘‘

’’مذاق چھوڑ دو ‘‘۔فریدی نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’میں تمہیں ایک کامیاب جاسوں دیکھنا چاہتا ہوں ۔‘‘

’’ ضرور دیکھئے حمید نے کہا۔ ’’ میں آپ کو کب منع کرتا ہوں لیکن میں اس کی اتنی  بھاری قیمت ادا نہیں کرسکتا۔‘‘

’’لیکن تم تو ابھی کان پکڑ رہے تھے ۔‘‘

’’تو آپ اس سے کیا سمجھے۔‘‘

’’یہی کہ اب عشق سے باز آجاؤ گے۔‘‘

آپ غلط  سمجھے ۔ حمید نے کہا۔’’میر امطلب یہ ہے کہ اب میں آپ کو موقع بے موقع تا ؤنہ دلایاکروں گا۔

’’لا حول ولا قوتہ ہیں تو میں کہتا ہوں ۔ فریدی نے کہا۔

’’آپ نے آج کا سارارو مائنس کرِ کرِ اکر دیا ۔‘‘

’’مجھے افسوس ہے ۔ فریدی نے کہا۔ ’’ لیکن رومانی اعتبار سے میرا دن بڑا حسین رہا۔‘‘

’’رومانی اعتبار ؟‘‘ حمید نے  متعجبانہ انداز سے دہرایا۔

’’ہاں  یہی میرا رومان ہے جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے جب کوئی پرُ اسرار چیز میرے سامنے آتی ہے تو مجھے کم و بیش وہی لذت محسوس ہوتی ہے۔

وہی بے چینی مجھ میں پیدا ہوتی ہے جیسے کسی شخص میں کسی حسین عورت سے پہلی بار لفٹ ملنے پر پیدا ہوسکتی ہے پھر جیسے جیسے میرے قدم کا میابی کی طرف اٹھتے ہیں۔

میرا جنون تیز سے تیز تر ہوتا جاتا ہے کیا  سمجھے ….؟‘‘

’’خدا کرے میں کبھی کچھ نہ سمجھوں۔حمید نے کہا۔

’’خیر چھوڑ وتم کرنل سعید کے بارے میں کیا جانتے ہو۔ فریدی نے دفعتاً بات کا رخ موڑتے ہوئے  پوچھا۔

’’مجھے اس کے متعلق کوئی علم نہیں ۔ ‘‘

Leave a Comment