فریدی لباس تبدیل کر کے باورچی کو کچھ ہدایات دینے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد کمپاؤنڈ میں ایک کارآکر رکی ۔ شہباز اور اس کی دو سہیلیاں شیلا ثریا اور اشرف ( ثریا کا بھائی ) کا ر سے اُتر کر کوٹھی میں داخل ہوئے ۔
’’آئیے آئیے میں انتظار ہی کر رہا تھا ‘‘فریدی نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’ہمیں دیر تو نہیں ہوئی ‘‘شہناز بولی۔
’’آپ تو ٹھیک وقت پر پہنچیں لیکن شاید ہمیں دیر ہو جائے ۔‘‘
’’کیوں‘‘ شہناز نے پوچھا۔
’’حمید کا اسکر یو پھر کچھ ڈھیلا ہو گیا ہے۔ ‘‘فریدی نے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
’’ ارے یہ کوئی نئی بات نہیں ۔‘‘شہناز ہنس کر بولی اور اس کی دونوں سہیلیاں اسے شرارت آمیز نظروں سے گھورنےلگیں۔
فریدی انہیں لے کر کھانے کے کمرے میں آیا جہاں بڑی میز پر ناشتہ چنا ہوا تھا۔
’’ارے اس کی کیوں تکلیف کی اشرف نے کہا۔
’’تکلیف ۔ ابھی تک تو کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی ۔‘‘ فریدی نے ہنس کر کہا۔
’’اور حمید صاحب ۔‘‘ثریا بولی۔
’’ابھی وہ غُسل خانے ہی میں تشریف فرما ہیں ۔‘‘ شہناز بولی۔
’’تو آپ کیجئے انتظار ہم لوگ تو شروع کر رہے ہیں ۔‘‘ فریدی نے کہا سب لوگ بننے لگے اور شہناز نے شرما کرسر جھکا لیا۔
میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ وہ ایسی ہی حالت میں سیدھا رہتا ہے جب اس کے ساتھ بے پروائی برتی جائے ۔‘‘
فریدی نے کہا۔‘‘ ورنہ دوسری صورت میں تو مزاج ہی نہیں ملتے۔‘‘
’’بہر حال بہن شہناز آپ کے مشورہ پرعمل نہ کرسکیں گی ۔‘‘ ثریا بولی۔
خیر تو آپ زچ ہوں گی مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘فریدی نے کہا اور ناشتہ شروع کردیا۔وہ لوگ ناشتہ کررہی رہے تھے کہ کمپاؤ نڈ میں کا ر ا سٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔
لیجیے نکل گیا ہاتھ سے ‘‘فریدی نے چونک کر کہا۔‘‘ عجیب خطبی آدمی ہے۔ بعض اوقات مجھے سچ مچ اس پر غصہ آنے لگتا ہے۔‘‘
شہناز کُرسی سے اُٹھ کر کھڑکی کے قریب آئی۔ حمید فریدی کی کار پھاٹک کے باہر لے جا چکا تھا۔ وہ کچھ مضمحل ہی ہو کر
واپس آگئی۔
Leave a Comment
You must be logged in to post a comment.