درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

وہ دونوں پھر چل پڑے۔ فریدی بدستور خیالات میں ڈوبا ہوا تھا۔ تالاب نزدیک ہی تھا۔

سڑک سے تقریبًا ایک فرلانگ کے فاصلے پر اونچے نیچے ٹیلوں کے درمیان تالاب کا پرسکون پانی سورج کی کرنوں سے کھیل رہا تھا۔ مشرق کی سمت سے کچھ سیخ پھر اور آئے چند لمحے پانی پر منڈلانے کے بعد نیچےگر گئے حمید اور فریدی آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے ٹیلوں کے پاس آئے فریدی نے اپنی دو نالی بندوق اٹھائی فائر ہوا۔ پرندے شور مچاتے ہوئے اڑے۔ دوسرا فائر ہوا اور دو تین اڑنے والوں میں سے بھی پانی میں گرے۔

’’بہت خوب‘‘ حمید چیخا دو نالی بندوق کا  صیح استعمال صرف آپ جانتے ہیں۔‘‘

  حمید تلاب میں اتر گیا۔ اس نے بدقت تمام چار پرندے نکالےدوسیخ پر جن کے بازو زخمی ہو گئے تھے کسی طرح ہاتھ نہ

آئے۔

’’میرے خیال سے تو اتنے ہی کافی ہوں گے۔‘‘حمید بولا  ۔

’’ اگر تمہاری نیت بخیررہی تو یقینًا ایساہی ہوگا ۔‘‘ فریدی نے کہا۔ دونوں واپس ہونے کے ارادے سے کھا ئیوں کی طرف روانہ ہو گئے ۔ آسمان پر پھیلے ہوئے بادل پھٹ کر ادھر ادھرٹکر وں کی شکل میں بکھر گئے اور دھوپ تیزی سے چمکنے لگی تھی۔ کھا ئیوں کے قریب پہنچتے پہنچتے انہیں شدت سے پیاس لگ گئی جیسے ہی وہ سرکنڈے کی جھاڑیاں ہٹاتے ہوئے اوپر چڑھے انہیں سامنے سڑک کے اس پار ایک عمارت دکھائی دی۔

’’ غالبًا یہ وہی عمارت ہے جس کا تذ کرہ اشرف نے کیا تھا۔‘‘ فریدی نے کہا۔ ’’ آؤ  چلئے شاید وہاں پانی مل سکے۔‘‘

دونوں عمارت کی طرف بڑھے۔ قریب پہنچ کر انہیں مشینوں کے چلنے کی آواز سنائی دی۔ فریدی عمارت کے پھاٹک پر لگا ہوا بورڈپڑھنے لگا ۔‘‘یہاں خیموں کے ستون تیار کئے جاتے ہیں۔ پھاٹک کے اندر قدم رکھتے ہی سب سے پہلے ان کی نظر ایک ٹرک پر پڑی فریدی چونک پڑایہ ہی ٹرک تھا جس کے نمبر سڑک پر بدلے گئے تھے حمید کچھ بولنے ہی والا تھا کہ فریدی نے اسے گھور کر دیکھا۔

کمپاؤن میں کئی چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے۔ تین چار بڑے بڑے شیڈ تھے ۔ یہاں بانس اور لکڑی کے ڈھیر لگےتھے۔ ایک آدھ جگہ لکڑی کے برادے کے بڑے بڑے انبار بھی نظر آ رہے تھے ایک چھوٹے سے کمرے میں دروازے پر ایک تختی لگی ہوئی تھی۔ جس پر لکھا تھا۔ ’’مینجر‘‘۔

فریدی چق اٹھ کر اندر داخل ہو گیا سامنے کُرسی پر ایک دبلا  پتلاعمر آدمی بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا۔ فریدی اور حمید کو اس نےسوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

’’مجھے افسوس ہے کہ میں کسی تجارتی مقصد کے تحت نہیں آیا۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’تشریف رکھئے مینجر مسکرا کر بولا ۔ وہ ابھی تک انہیں استعجاب آمیز نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

’’بات دراصل یہ ہے کہ ہم لوگ پیاسے ہیں ۔‘‘ فریدی نے کہا۔

’’اوہ ‘‘مینجرمسکرا کر بولا۔ ’’تشریف رکھئے۔‘‘ پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا اس نے گھنٹی بجائی اور ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ ان لوگوں کو پانی پلاؤ۔ اس نے کہا۔نو کر چلے جانے کے بعد وہ پھر فریدی کی طرف مخاطب ہوا۔ شاید آپ لوگ ادھر شکار کھیلنے کی غرض سے آئے تھے ۔ ‘‘

’’جی ہاں ۔‘‘

’’ اس سے پہلے بھی کبھی آئے ہیں ۔ ‘‘

’’اب سے تقر یبًاد و سال قبل ‘‘۔ فریدی نے کہا۔’’ اس وقت آپ کا کارخانہ یہاں نہیں تھا ۔ ‘‘

Leave a Comment