درندوں کی موت-ناول-ابن صفی

’’ایک مچھلی کے جبڑوں میں اٹکا ہوا تھا۔‘‘

’’کیا فریدی نے حیرت سے کہا۔

’’جی ہاں‘‘

’’اچھا تمہیں پھر اس لڑکی کے بارے میں کچھ معلوم ہوا یا نہیں ۔‘‘

’’ہوں‘‘ فریدی نے کہا اور کچھ سوچنے لگا۔ ان دونوں ڈاکٹروں کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔‘‘ اور تھوڑی دیر بعد بولا۔

’’کام تو قائدے کا کر رہے ہیں مگر طریقہ کار بالکل احمقانہ ہے۔‘‘

’’کیا تم نے بھی کوئی احمقانہ حرکت دیکھی ۔‘‘

’’جی ہاں ایک زندہ چیتے کے ہاتھ پیر باندھ کر اس کے جسم سے خون نکال رہے تھے ۔ ‘‘

’’لیکن وہ چیتا نہیں بکرا تھا۔‘‘

’’بکرا۔‘‘حمید قہقہ لگاتا ہوا بولا۔’’چلئے آپ نے اور بھی بتا دیا۔‘‘

’’درحقیقتوہ بکرا ہی تھا۔‘‘فریدی نے کہا اور منختصر الفاظ میں سارے واقعات حمید کو بتاتا ہوا بولا۔‘‘صرف ایک چیز  مجھے ان کے خلاف شبے میں مبتلا کررہی ہے۔‘‘

’’وہ کیا‘‘۔

’’بکرے کے بولنے پر ڈاکڑ آصف کا بوکھلا جانا اور دفتًا میرے ساتھ والے ڈاکڑ وحید کا قہقہ لگا کراس کا جواب پیش کرنا۔اگر اور حقیقت اس حرکت سے ان کی وہی مراد تھی جو انہوں نے مجھے بتائی تو ڈاکڑ آصف کے گھبراجانے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔بہر حال یہا ں حماقت کے پردےمیں کوئی بہت بھیانک ڈراما کھیلا جا رہا ہے۔‘‘۔

’’مجھے بھی کچھ ایساہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘حمید نے کہا’’ورنہ اس ویران مقام پر تجربہ گاہ قائم کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔‘‘

’’خیر اس کے لئے تو نہایت عمدہ بہانہ تراش کر سکتے ہیں۔‘‘فریدی بولا۔’’چونکہ ان کے تجربات وحشی درندوں سے متعلق ہیں۔اس لئے انہوں نے اس کےلئےایک ویران جگہ منتخب کی۔‘‘

’’حمید خاموش ہو گیا۔‘‘

’’اس ہار کو احتیاط سے جیب میں رکھ لو۔‘‘فریدی نے کہا۔’’ان لوگوں کے سامنے اس کا تذکرہ نہ کرکے تم نے عقل مندی سے کام لیا۔‘‘

’’تواس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے‘‘حمید نے کہا۔

’’کرنل سعید سے ملے بغیر کچھ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘فریدی نے کہا۔’’ممکن ہے بچی مل گئی ہو۔‘‘

Leave a Comment