پہاڑوں کی ملکہ-ناول-ابن صفی

’’پوپی ….پوپی ‘‘۔ فریدی نے اپنے ننھے منے کتے کو پکارا جو سڑک پار کر کے دوسری طرف بھاگنے لگا تھا۔

’’بھلا بتائیے ان پوپیوں سو پیوں کو یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘‘۔ حمید نے بُر اسامنہ بنا کر کہا۔

’’ اگر بیوی ہوتی تو ان کے بجائے اسے لے آتا ۔ فریدی ہنس کر بولا۔

’’میں کہتا ہوں آپ اپنی زندگی فضول پر باز کر رہے ہیں ۔

’’بس آپ ہی کو خانہ آبادی مبارک رہے۔ خاکسار کو تلقین کی ضرورت نہیں ‘‘۔ فریدی بولا ۔

’’اچھا تو کب تک یونہی سڑکیں ناپتے رہیں گے ۔ چلئے سامنے والے پارک میں چل کر بیٹھیں۔

’’میراخیال ہے ہم ایک فرلانگ بھی نہیں چلے۔ فریدی نے کہا۔’’ اوہ اچھا تو یہ بات ہے وہاں وہ نیلی پیلی ساڑیاں جو لہرارہی ہیں۔ خیر جناب چلئے‘‘۔

یہ دونوں پارک میں آئے۔ پولی اپنی ننھی منی گنجان بالوں والی دم لہراتا ہو ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔ دفعتاً ایک السیشن  کلاس پر جھپٹا قبل اس کےکہ فریدی آگے بڑھ کر اسے چھڑاتا۔

السیشن کتے نے اسے دو تین  پٹکینیاں سے کیا۔ ایک طرف سے ایک خوبصورت  انگریز لڑکی  چیختی ہوئی کتے کی طر دوڑی اور پوپی کو اسے چھین کر گود میں اٹھایا  جس بنچ پر سے وہ لڑکی آ
ئی تھی اس پر ایک انگریز مر دبھی بیٹا تھا۔ فریدی جھلاہٹ میں اس کی طرف بڑھا۔

’’کیوں جناب یہ کتاآپ کا ہے ؟ ‘‘فریدی نے اس سے پوچھا۔

’’ کیوں!‘‘ اس نے فریدی کو دتیکھی نظروں سے گھور کر پو چھا۔

’’وہ اس لئے کہ اس نے میرے کتے کو قریب قریب ختم ہی کر دیا ہے ۔

’’تو میں کیا کروں‘‘ ۔ وہ  لاپرائی سے بولا ۔

’’اس قسم کے وحشی کتے آز ادر کھے جاتے ہیں ‘‘۔ فریدی نے تیز لہجے میں کہا۔

 انگریز نے کوئی جواب دینے کے بجائے نفرت سے منہ پھیر لیا۔

’’ مسٹر مجھے افسوس ہے لڑکی نے فریدی کے قریب آ کر کہا پھر اپنے ساتھی انگریز سے مخاطب ہو کر بولی۔

’’ ٹام تم بعض اوقات ضرورت سے زیادہ احمق ہو جاتے ہو‘‘۔

’’تو اب میں کیا کروں کتا ہی تو ہے ‘‘۔ انگریز بولا۔

’’ اگر یہی بات ہے تو ٹھہر و میں بھی ایک منگا تا ہوں‘‘ ۔ فریدی نے تلخ لہجے میں کہا۔

’’جاؤ جاؤ مت دماغ چاٹو ۔ انگریز گرج کر بولا۔

’’اچھا تو اگر تم اپنے باپ کے بیٹے ہو تو اس وقت تک یہاں ٹھہروجب تک کہ میر اکتا بھی یہاں نہ آجائے‘‘۔

Leave a Comment